وفاقی بجٹ ۱۳۔۲۰۱۲ء : ایک جائزہ

وفاقی بجٹ ۱۳۔۲۰۱۲ء : ایک جائزہ

معیشت کی صورت حال

جی ڈی پی او ر شعبہ جاتی نمو: گزشتہ 4 سال سے پاکستان نچلی سطح کی معاشی نمو حاصل کرپایا ہے جس کی اوسط 3فی صد سے کم ہے۔ اب شرح نمو ۱۲۔۲۰۱۱ءکے %3 سے بڑھ کر ۱۱۔۲۰۱۲ءمیں 3.7فی صد ہو جانے کی توقع ہے۔زراعت کے شعبے کی نمو 3.1فی صد، مینو فیکچرنگ 3.6فی صد اور خدمات کے شعبے میں 4فی صد ہونے کی توقع ہے۔حقیقی نجی صرف( Real Private Consumption)کا اندازہ سال ۱۲۔۲۰۱۱ءکے دوران 11.6فی صد لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال 3.7فی صد تھا۔ اس سے بچتوں اور سرمایہ کاری میں نمایاں کمی کی نشان دہی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری GDPکے 13.1فی صد سے کم ہوکر 12.5فی صد ہوچکی ہے جبکہ بچتیں GDPکے 13.2فی صد سے کم ہو کر صرف 10.7فی صد رہ گئی ہیں۔ مجموعی سرمایہ کاری اور قومی بچتوں کے درمیان فرق کو بیرونی ذرائع سے آنے والی رقوم سے پورا کیا گیا۔
بیرونی شعبہ:بیرونی شعبے کی جانب سے بھی ملے جُلے اشاریے سامنے آئے ہیں مثبت پہلو یہ ہے کہ مالی سال ۱۱۔۲۰۱۲ءکے پہلے دس ماہ میں ترسیلاتِ زر کے حجم میں 20% اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اورترسیلات زر 10.9بلین ڈالر کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مالی ذخائر میں کمی واقع ہوئی، درآمد ی بل میں اضافہ اور برآمدی نمو سست روی کا شکار رہی۔روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ عالمی مالیاتی بحران اور یوروزون بحران کی وجہ سے خوراک کی اشیااورخام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے بیرونی شعبہ شدید دباؤ سے دو چار ہواہے اور اس پر مزید دباؤ آسکتا ہے۔
افراطِ زر:موجودہ معاشی صورتحال کا ایک خاص پہلو افراطِ زر میں بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ شرح نمو میں کمی ہے۔ سال ۲۰۰۸   میں افراطِ زر 25%کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد 10%تک نیچے آ گیاہے ۔ اگرچہ افراطِ زر کی موجودہ شرح بھی کم نہیں ہے، تاہم پچھلے چار سالوں میں انتہائی زیادہ افراطِ زر کے مجموعی اثرات نے صارفین کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔
توانائی اور بجلی کا شعبہ: قوم پچھلے چار سالوں سے توانائی بحران کا شکار رہی ہے۔ دعووں کے باوجود اس کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ بجلی اور گیس کی عدم دستیابی معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے اور عوام کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود عدم دستیابی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ چند ایک نہایت اہم مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں جیسا تقسیم کے مرحلے میں بجلی کا ضیاع، گردشی قرضہ، میسر پیداواری صلاحیت کا مؤثر استعمال اور کوئلہ، ہوا، پانی اور شمسی توانائی جیسے متبادل ذرائع کا استعمال لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تمام حوالوں سے اس شعبہ میں پیش رفت نہایت سست ہے۔
روزگار: کئی سالوں پر محیط سست ترقی اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے روزگار کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ بجٹ میں تجویز کردہ اقدامات و محرکات مایوس کن ہیں جیسا کہ ایک لاکھ ملازمتیں دینا اور انٹرن شپ کی پیشکش ۔اس قسم کے اقدامات بے روزگاری کے مسئلہ کو حقیقی طور پر حل نہیں کرتے یہ محض اداروں پر بوجھ بڑھاتے ہیں۔ بے روزگاری کو 7%سے 4% تک کم کرنے کے لئے سالانہ شرح نمو 7%ہونا ضروری ہے۔
سوشل سیکورٹی: یہ واضح ہے کہ غربت اور آمدنی میں تفاوت بہت بڑھ چکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس مسئلے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ تاہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد 50ارب سے بڑھا کر 70ارب کردی گئی ہے ۔ یہ پروگرام متنازعہ اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور اِس پر کئی سوال بھی متعلقہ حلقوں کی جانب سے اٹھائے جاچکے ہیں۔پروگرام کے تحت لوگوں کے کمانے کی صلاحیت کو اُجاگر کرنے کے برعکس انہیں چھوٹی چھوٹی ماہانہ نقد رقوم کا محتاج بنایا جا رہا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے