آئی ایس ایس آئی میں او آئی سی حکام کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر تبادلہِ خیال
وائس چیئرمین آئ پی ایس سفیر (ر) سید ابرار حسین، جنرل منیجر نوفل شاہ رخ، اور آئ پی ایس کے ورکنگ گروپ آن کشمیر کی سیکرٹری جنرل اور آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیر فرزانہ یعقوب نے 11 اکتوبر 2023 کو او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی ایلچی برائے جموں و کشمیر / اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور سفیر یوسف الدوبے ، جن کے ہمراہ ڈائریکٹر قانونی شعبہ او آئی سی سفیر حسن علی حسن اور دیگر حکام بھی موجود تھے، کے ساتھ گول میز مباحثے میں حصہ لینے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کا دورہ کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سفیر الڈوبے نے جموں و کشمیر کے تنازعہ پر بیداری پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو تشویش ہے۔ انہوں نے کشمیر کاز کے لیے او آئی سی کی مستقل حمایت کا اعادہ کیا اور مزید کہا کہ او آئی سی نے کبھی بھی مقبوضہ علاقے میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کی حمایت نہیں کی۔
سفیر سید ابرار حسین نے تجویز دی کہ او آئی سی کی طرح اقوام متحدہ کو بھی اپنے ادارے میں مسئلہ کشمیر پر ایک نمائیندہ خصوصی طور پر نامزد کرناا چاہیے۔
فرزانہ یعقوب نے بھی پرزورانداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر بھارت متنازعہ خطے میں غیر قانونی قبضے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم سمیت کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد نظر آتا ہے، جبکہ کشمیری عوام کو اس مسلط شدہ جبر کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کا جائز حق حاصل ہونے کے باوجود دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی بہت مایوس کن ہے کہ ہر کسی نے اس جھوٹے الزام کو قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ او آئی سی کو بھرپور طریقے سے اس بات پر قائم رہنا چاہیے کہ کشمیریوں کو جوابی کارروائی کرنے اور لڑنے کا جائز حق حاصل ہے۔
نوفل شاہ رخ نے مسلم دنیا میں بین الاقوامی قانون میں تحقیق اور پریکٹیس کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اسے درپیش اہم چیلنجوں سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعلیم اور تحقیق کے لیے کامسٹیک میں او آئ سی کی سرمایہ کاری کے خطوط کی طرز پر اسے مسلم دنیا میں بین الاقوامی قانون اور پالیسی تحقیق کے لیے ایک اجتماعی پلیٹ فارم بنانے میں بھی فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ او آئی سی نے 2008 کے اپنے چارٹر میں پہلے ہی بین الاقوامی قانون کو اپنا ترجیحی ایریا قرار دیا ہے اور اس کے ذیلی شعبوں جیسے انسانی حقوق، امن سازی، انسانی حقوق، دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی وغیرہ میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اجتماعی تحقیقی کام کے آغاز کا اقدام مسلم دنیا کے اندر اس انتہائی اہم ڈسپلن پر صلاحیتوں کی تعمیر میں بہت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
جواب دیں