آئی پی ایس کا سماجی و قانونی مسائل پر قانون سازی کا جائزہ لینے کے لیے اسٹڈی گروپ کا آغاز
نئی آنے والی حکومت کو اپنے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرتے ہوئے ملک کے سماجی ڈھانچے، قومی رویوں اور مذہبی تقاضوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسے قوانین بنانے چاہییں جو معاشرے اور خاندان کے استحکام میں مددگار ہوں۔
اس بات کا مشاہدہ مقررین نے ‘سماج سے متعلق قوانین کے جائزہ کے لیے ورکنگ گروپ’ کے آغاز کے موقع پر کیا جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام اس مقصد سے قائم کیا گیا ہے کہ ملک میں مؤثر قانون سازی کے لیے بحث مباحثے کے ذریعے مفید سفارشات مرتب کی جا سکیں۔
اس ورکنگ گروپ کا ایک بڑا مقصد پالیسی سازی کے عمل میں محققین کی صلاحیتوں سے استفادہ ہے جو ملکی زندگی کے مختلف پہلووؤں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان میں ماہرینِ قانون، ماہرین تعلیم، علما اور سماجی کارکن شامل ہیں۔ اس اقدام کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سماجی و قانونی مسائل پر غیر جانبدارانہ، تعمیری اور نتیجہ خیز انداز میں گفتگو کرنا ہے۔ یہ گروپ پالیسی سازوں، رائے سازوں اور عام شہریوں کے لیے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دینے کے لیے قوانین اور بلوں کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اجلاس کرے گا، جس کے متوقع نتائج پالیسی ان پٹ اور قانون سازی کے جائزوں کی صورت میں سامنے آئیں گے۔
31 جنوری 2024 کو ہونے والے اس اسٹڈی گروپ کے پہلے اجلاس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، ماہرِ آئین و قانون پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام ، سینئر محقق سید ندیم فرحت، ڈائریکٹر ویمن ایڈ ٹرسٹ ڈاکٹر شگفتہ عمر، ، خالد نعیم، ممبر نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی)، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عاصمہ مشتاق، اور دیگر شرکاء، بشمول ماہرینِ قانون، ماہرینِ تعلیم، علمائے کرام اور سماجی کارکنوں نے خطاب کیا۔
تعارفی کلمات میں ندیم فرحت نے کہا کہ موًثر قانون سازی مسلسل تبدیلیوں سے گزرتے معاشرے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ حالیہ عرصے میں ایسے قوانین تسلسل سے سامنے آ رہے ہیں جو بدلتے ہوئے معاشرتی رجحانات میں براہِ راست یا بالواسطہ خاندانی نظام اور خاندان کے ادارے سے متعلق ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں، قانون ساز ادارے ایسے قوانین بنا کر اور ان میں ترمیم کر کے سماجی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو آبادی کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ہوں۔ قانون سازی کی اہمیت، بالخصوص خاندانی معاملات میں، منصفانہ سماجی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے ریاست کے عزم کو واضح کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تناظر میں، یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ مختلف داخلی و بیرونی عوامل کے نتیجے میں قانون سازی کے ذریعے ریاست اپنے ردّعمل کا اظہار کس طرح کر رہی ہے،کیونکہ اسی سے اپنے شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قوم کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر، قانون سازی کے اقدامات قانونی منظرنامے کی تشکیل، سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنانے اور بدلتے ہوئے معاشرے کے متحرک چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے ناگزیر ہتھیار ہیں۔
ا س موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے شرکا نے قانون سازی میں افادیت اور مختلف طبقات کے باہم ربط کو یقینی بنانے کے لیے ایسی بنیادی دستاویز کی تیاری پر زور دیا جس میں موثر قانون سازی سے متعلق تمام بنیادی امور کا احاطہ کیا گیا ہو ۔ شرکاء نے شہریوں کی آگاہی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سماجی تبدیلیوں کے ساتھ قانونی ڈھانچے کو ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مسلط کردہ قانون سازی کے خلاف محتاط رہنے اور بنیادی اقدار کو انسانی حقوق کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
شرکاء نے صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہم آہنگی اور صوبائی بیوروکریسی کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر زور دیا۔ مزید برآں، قوانین اور قوانین کے مقصد سے متعلق معلومات تک عوام کی رسائی کو یقینی بنانا بھِی شہریوں کی سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ بحث میں ایک مؤثر قانون سازی کے فریم ورک کے لیے قانون سازی کی حرکیات کی گہرائی سے تحقیق کرنے پر زور دیا گیا۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ قانون ساز سماجی و قانونی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، معاشرے کے اندر صلاحیت سازی کی ضرورت پر زور دیا ۔ مزید برآں، انہوں نے قانون سازی کے عمل کی پیچیدگیوں اور معاشرے پر ان کے اثرات کو سمجھنے کرنے کے لیے درکار باہمی تعاون کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے باہم مباحثہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
جواب دیں