آئی پی ایس کے منعقد کردہ گول میزاجلاس میں سود سے پاک معیشت کے بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی تعریف
سود سے پاک معیشت کے بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ (ایف ایس سی ) کے فیصلے کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔حد سے زیادہ تاخیر کے باوجود،اس فیصلے نےاس سلسلہ میں پہلے سے پیش کیے گئے تمام تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دے کر درست سمت کا تعین کر دیا ہے۔
سود سے پاک معیشت کے بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ (ایف ایس سی ) کے فیصلے کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔حد سے زیادہ تاخیر کے باوجود،اس فیصلے نےاس سلسلہ میں پہلے سے پیش کیے گئے تمام تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دے کر درست سمت کا تعین کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے، سود سے پاک معیشت کے قابل عمل اقداات کی توثیق کرتے ہوئے، اس خواب کی تعبیر کے لیے نئے مواقع کھولے ہیں ، اب حکومت اور تمام متعلقہ فریقین کو اجتماعی طور پر آگے بڑھتے ہوئے اسے ایک احسن قدم کے طور پر لینا چاہیے۔
یہ 29 اپریل 2022 کوآئی پی ایس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک ہائبرڈ گول میز اجلاس کے شرکاء کا متفقہ نقطۂ نظر تھا جس میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد سودکے خاتمے کے لیے عملی پہلوؤں پر آگے بڑھنے کے راستے پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن کی زیر صدارت اجلاس میں جن اسلامی اقتصادیات کےماہرین، پالیسی پریکٹیشنرز، اسکالرز اور اسلامی بینکاری اور مالیاتی صنعت کے رہنماؤں نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق سیکریٹری خزانہ اور سابق ایس اے پی ایم اقتصادی امور ؛ ڈاکٹر سلمان سید علی، لیڈ ریسرچ اکانومسٹ، اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، جدہ؛ ڈاکٹر محمد ایوب، ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ ٹریننگ، رفاہ سینٹر آف اسلامک بزنس، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (آر آئی یو)؛ ڈاکٹر عتیق الظفر خان، ڈین، سوشل سائنسز، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی؛ ظفر الحسن الماس، جوائنٹ چیف اکانومسٹ، پلاننگ کمیشن آف پاکستان؛ ڈاکٹر طاہر منصوری، سابق نائب صدر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد؛ محمد فرحان الحق عثمانی، میزان بینک کےایگزیکٹو نائب صدر اور شریعہ آڈٹ اینڈ ایڈوائزری کے سربراہ ؛ عظیم پیرانی، چیف ایگزیکٹو آفیسر، پاک-قطر فیملی تکافل؛ تنظیم اسلامی کے رہنما حافظ ڈاکٹر عاطف وحید؛ سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ، معاون خصوصی برائے قانونی و پارلیمانی امور، جماعت اسلامی؛ ڈاکٹر انور شاہ، شعبہ معاشیات، قائداعظم یونیورسٹی؛ غزالہ غالب، لیکچرار، شریعہ اینڈ لاء ڈیپارٹمنٹ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد(آئی آئی یو آئی)؛ امینہ سہیل، قانونی مشیر اور آئی پی ایس ایسوسی ایٹ؛ قانت خلیل، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور آئی پی ایس ایسوسی ایٹ؛ عمران شفیق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور وزیٹنگ پروفیسر، آئی آئی یو آئی ؛ احسن شفیق، الکی (آئی ایل کے آئی) فاؤنڈیشن، استنبول؛ نوفل شاہ رخ، جی ایم آپریشنز آئی پی ایس اور سید ندیم فرحت، آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ آفیسر شامل تھے۔
شرکاء نے اس بات کو سراہا کہ ایف ایس سی نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں جو 2002 سے زیر التوا تھا، اسلام کے احکامات کے مطابق سود کی ممانعت کو اس کی تمام شکلوں اور مظاہر میں مطلق قرار دیا ہے۔
چیئرمین آئی پی ایس کا خیال تھا کہ ایف ایس سی نےتو بالآخر ربا کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں سیاسی مرضی شامل ہو جانے پرشکوک و شبہات ہیں۔ اگر سیاسی قوتوں کا ارادہ موجود نہیں ہے تو اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں بھی بڑی لڑائی ہوگی۔
انہوں نے کہا ”اس فیصلے کو اپنی حیثیت میں اختتام نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ پوری معیشت اور مالیاتی شعبے کو اسلام کے احکام کے مطابق ڈھالنے اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھنے کی طرف صرف ایک آگے بڑھایا گیا قدم ہے“ ۔
رحمٰن نے اس بات پرزور دیا کہ ایڈووکیسی اور آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ ٹاسک فورسز اور ورکنگ گروپس بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کے لیے بیداری اور حمایت پیدا کرنے میں مرکزی دھارے کےمیڈیا اور سوشل میڈیا، علماء اور سیاست دانوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ماہرین نے یاد دلایا کہ اسلامی معاشی نظام کا مطلب صرف سود سے پاک بینکنگ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا مالیاتی اور معاشی نظام سود سے پاک ہو۔
انہوں نے کہا کہ ایف ایس سی نے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت اور متعلقہ محکموں کو 31 دسمبر 2027 تک کی انتہائی معقول رعایتی مدت دی ہے۔
شرکاء نے خبردار کیا کہ کچھ بینک یا یہاں تک کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دائر کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک اور حکم امتناعی مزید تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس فیصلے کے بعد بینکوں کو کوئی بھی نئی روایتی بینکنگ شاخیں کھولنے کی اجازت نہ دی جائے۔ بینکنگ کے گرے ایریاز کی نشاندہی کرکے انہیں اسلامی بینکاری میں تبدیل کیا جائے۔ تاہم، چند بینکنگ مصنوعات ایسی ہیں جن کے لیے اسلامی بینکاری میں کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات میں قابل عمل حل کے لیے کام سنجیدگی سے شروع ہونا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کے مخصوص شعبوں مثلاً زراعت، صنعت، ایس ایم ایز وغیرہ کے لیے فنانسنگ مصنوعات تیار کی جائیں۔
شرکاء کا خیال تھا کہ ایف ایس سی کے فیصلے نے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹ کو دور کر دیا ہے اور اس کے فیصلے پر نظرثانی کا راستہ مؤثر طریقے سے روک دیا ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ریمانڈ آرڈر کی تعمیل میں سنایا گیا ہے اور فیصلے میں بیان کردہ تمام نکات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں دوبارہ اپیل دائی کرتی ہے تو ا س کی کامیابی کے امکانات محدود ہوں گے۔
ظفر الحسن الماس نے کہا کہ ایف ایس سی کے فیصلے پر عمل درآمد میں سب سے بڑا چیلنج حکومت کی اس حوالہ سے سنجیدگی ہو گی۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مصنوعات کی دوبارہ انجینئرنگ کرنا ہوگی۔ تاہم، یہ کیسے کرنا ہے اس کے بارے میں آگاہی کی ایک بہت بڑی کمی موجود ہے۔
امینہ سہیل نے کہا کہ چیزوں کو واضح کرنے کے لیے ایف ایس سی کے فیصلے پر تفصیلی گہرائی سے تنقید ی جائزے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی اور مالیاتی نظام کے بنیادی اصولوں کو تبدیل کرنے کے لیے اس بڑی مشق کے نفاذ پر ذمہ داریوں کو تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فرض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس نے پہلے ہی اس سلسلے میں کافی کام کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد ایوب نے کہا کہ بینکوں کے کام کو آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ انہیں اسلامی بینکاری کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے، بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ سرکاری قرضوں جیسے ٹی بلز، سکوک وغیرہ کا معاملہ کیسے نبٹایا جائے۔ اسلامی مالیات اور معیشت کے حوالہ سے پاکستان میں مالیاتی خواندگی کا فقدان ہے۔ اسٹیٹ بینک کو مالیاتی شعبے میں اسلامی روح کے جوہر کو ابھارنے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے۔
نوفل شاہ رخ کا خیال تھا کہ اسلامی معیشت کا فوکس بینکنگ سیکٹر سے ہٹ کر ریاست اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کی فوری ضرورت ہے اور یہ کام مقامی زبانوں کے ذریعے کیا جانا چاہیے تاکہ اسے مزید موثر بنایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور سود پر مبنی لین دین، ذخیرہ اندوزی اور قیاس آرائیاں نچلی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں، جن پر اسلامی اسکالرز اور میڈیا کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں