‘ آرٹیکلز 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیر کی جدوجہد ‘
کشمیر پر پاکستان کا بیانیہ سچائی پر مبنی ہے، اسے حقیقت سے باخبر نوجوانوں کے ذریعے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
آج کے بیانیے پر مبنی دور میں پاکستان کو کشمیر پر اپنے موقف کی سچّائی اور کشمیریوں کی حمائیت کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہر سطح پر فعال سفارت کاری کو بروئے کار لا کر کشمیر پر اپنے موقف کو وسعت دینا چاہیے۔ نوجوانوں کو باخبر کر کے ان کو بھی اس معاملے کی آگہی دینے کی کوششوں میں شامل کرنا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر نمایاں کیا جا سکے۔
یہ طریقہ کار بھارت کے اُس بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے جو مسئلہِ کشمیر کو بھارت کے اندرونی معاملے کے طور پر پیش کرتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو حقیقت سے بہت کم کر کے بیان کرتا ہے۔چونکہ بھارت کے جبری طریقے اور بیانیے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے پاکستان کی موًثر بیانیہ سازی اور اس میں نوجوانوں کی شمولیت عالمی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ بات مقررین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں یوتھ فورم فار کشمیر (وائے ایف کے) کے تعاون سے ‘آرٹیکلز 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیر کی جدوجہد’ کے عنوان سے 5 اگست 2024 کو منعقدہ ایک سیشن کے دوران گفتگو میں کہی۔ اس تقریب میں 2019 کے بعد کی کشمیریوں کی جدوجہد پر مبنی ایک مختصر دستاویزی فلم ‘کشمیر: آ پیراڈائیز، کولونائیزڈ’ پیش کی گئی اور یوتھ فورم فار کشمیر کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کے بارے میں نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے منعقد کیے گئے ایک مضمون نویسی کے مقابلے کے فاتحین کا اعلان بھی کیا گیا۔
تقریب کی صدارت رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم نے کی جبکہ اس موقع پر چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، سینئیر ریسرچ فیلو آئی پی ایس ڈاکٹر شہزاد اقبال شام ، سابق سیکرٹری آزاد جموں اینڈ کشمیر سلیم بسمل، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کی چئیر پرسن ڈاکٹر نور فاطمہ ، سابق وزیر آزاد کشمیر اور آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی ایٹ فرزانہ یعقوب ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یوتھ فورم فار کشمیر زمان باجوہ ، اور دیگر شرکاء نے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر شازیہ نے مسئلہ کشمیر پر مستقل اور فعال بین الاقوامی سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا ، اور محض سیاسی لیڈروں سے آگے بڑھ کر معاشرے کے ہر سطح تک پہنچنے کی تجویز دی۔ انہوں نے نوجوانوں اور لیڈروں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ کو ختم کرنے اور موثر نمائندگی کے لیے عصری آلات کو موًثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔
بسمل نے کہا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کی دو جہتیں ہیں، یعنی رئیل اسٹیٹ اور انسان۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ بھارت زمین پر قبضے کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن وہ کشمیری عوام کے دل و دماغ جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ بہت مثبت پہلو ہے اور پاکستان کو اپنی سچائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نوجوانوں کو اپنے بیانیے کی تشہیر کے لیے متحرک کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر نور نے ارونادھتی رائے کے ہندوستان کے خود ساختہ جمہوریت کو "سب سے بڑا جھوٹ” قرار دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی بیانیے مقبوضہ کشمیر میں شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپا نہیں سکتے۔ انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر اور بین الاقوامی حمایت کی ضرورت پر زور دیا۔
فرزانہ یعقوب نے کہا کہ جہاں پاکستان کشمیر کی فعال حمایت کرتا ہے، وہیں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کا بھی کلیدی کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا کو بیانیہ پر مبنی مواد بنانے اور اس کی تشہیر کرنے اور شیڈو پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایڈووکیسی کے ٹول کے طور پر استعمال کریں۔
کشمیر کی جدوجہد ایک طویل میراتھن ہے جسے نوجوان آگے بڑھا ئیں گے اگر انہیں صحیح پلیٹ فارم اور مہارتیں مہیا کردی جائیں، یہ بات زمان باجوہ نے نوجوانوں کی دلچسپی اور صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔
دیگر مقررین کا خیال تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے اندرونی اقتصادی اور عسکری استحکام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور لچک بہت ضروری ہے۔ انہوں نے آزادی کے حصول کے لیے بین الاقوامی حمایت اور اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ، اور کشمیر کے مزاحمت کے جذبے کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل بیانیہ سازی کی وکالت کی۔
اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کشمیر کے حامی بیانیے کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے باخبر اور ہنر مند نوجوانوں کی پرورش کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوانوں کو علم اور وکالت کی مہارتوں سے آراستہ کرنا کشمیر کاز کو برقرار رکھنے اور عالمی سطح پر غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کشمیر کے حامی بیانیے کو فروغ دینے میں نظامی چیلنجوں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ یہ مسئلہ دو طرفہ تنازعہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر خود ارادیت کا ہے ۔ رحمٰن نے مسئلہ کو نمایاں رکھنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کی ہندوستان کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کثیر جہتی کوششوں اور مضبوط بین الاقوامی سفارت کاری پر زور دیا۔
جواب دیں