آ ئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس [۲۰۱۹]
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کی نیشنل اکیڈمک کونسل (National Academic Council) کے سالانہ اجلاس میں کلیدی قومی مقاصد کے حصول کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور قوم کی تعمیرِ نو کے لیے تعلیمی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ نیشنل اکیڈمک کونسل (NAC) کے ممبران اس بات پر متفق تھے کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے نہ صرف تعمیری عمل کا مؤثر فروغ ممکن ہے بلکہ ملک کے اندر طبقاتی و دیگر تفریقوں کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ وہ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۹ کو ہونے والےآئی پی ایس کے سالانہ اجلاس میں ملک کے اہم امور پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
قومی مقاصد کے حصول، ملکی مفادات کے تحفظ اور قوم کی تعمیرِ نو کے لیے تعلیمی اصلاحات پر زور
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کی نیشنل اکیڈمک کونسل (National Academic Council) کے سالانہ اجلاس میں کلیدی قومی مقاصد کے حصول کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور قوم کی تعمیرِ نو کے لیے تعلیمی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ نیشنل اکیڈمک کونسل (NAC) کے ممبران اس بات پر متفق تھے کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے نہ صرف تعمیری عمل کا مؤثر فروغ ممکن ہے بلکہ ملک کے اندر طبقاتی و دیگر تفریقوں کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ وہ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۹ کو ہونے والےآئی پی ایس کے سالانہ اجلاس میں ملک کے اہم امور پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
واضح رہے کہ آِ پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل ملک بھر کے ممتاز دانشوروں، علماء، تعلیمی رہنماؤں اور تجزیہ کار ماہرین کی مجلس ہے جنہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے آئی پی ایس اپنے تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے میں ان کی آراء سے راہنمائی حاصل کرتا ہے۔
اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالد رحمٰن نے کی۔ شریکِ مجلس میں شمشاد احمد خان ،سابق وفاقی سیکرٹری خارجہ امور، مرزا حامد حسن ،سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ پانی و بجلی، ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ، فصیح الدین ،سابق چیف اکانومسٹ، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر سارہ صفدر، ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن، مفتی منیب الرحمٰن، صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان، بیرسٹر سعدیہ عباسی، سابق سینیٹر، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ،وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (RIU)، ڈاکٹر سید محمد انور، رکن اسلامی نظریاتی کونسل، پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت ،وائس چانسلر یونیورسٹی آف سندھ، ڈاکٹر سید طاہر حجازی ،وائس چانسلر ،مسلم یوتھ یونیورسٹی، ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال ،دفاعی تجزیہ کار، ڈاکٹر قاسم بگھیو،سابق چیئرمین پ،اکستان اکیڈمی آف لیٹرز اور امان اللہ خان، سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزشامل تھے۔
پاکستان کو درپیش مختلف مسائل پر اظہارِ خیال کرتے ہوئےشرکاء کا مؤقف تھا کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے میدان میں پہلے سے کئی گنا زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ اب اسے بیک وقت چین بمقابلہ امریکہ اور ایران بمقابلہ سعودی عرب اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کے محاصرے نے معاملات کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے تاہم یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ بھارت کے زیرقبضہ کشمیرمیں درپیش انسانیت سوز بحران کو عالمی برادری کے علم میں لائے۔
انہوں نے سیاسی، نظریاتی، معاشرتی اور اخلاقی بحران کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان پڑی دراڑوں اور باہمی تقسیم میں ہونے والے مسلسل اضافے پر بات چیت کی اور قومی اتحاد کو احتیاط سے پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس ضمن میں تعلیم اور میڈیا کے مؤثر استعمال کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
اجلاس میں جدید دور میں ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے کردار اور ہماری معاشرتی اقدار پر اس کے اثرات کے حوالہ سے بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ملک جس مقام پر کھڑا ہے اس پر NAC کے ارکان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم چوتھے صنعتی انقلاب کے آخری سرے پر کھڑے دوسرے ممالک کو اس میں اگے بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کی آبادی میں اضافے، زرعئ زمین میں ہونے والی کمی اور تعلیم کی نجکاری جیسے معاملات پر بڑھتے ہوئے خدشات کی بھی نشاندہی کی گئی۔ اسی طرح توانائی اور ماحولیاتی چیلنجوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس بات پر بھی اظہارِ خیال ہوا کہ کوئلے سے توانائی، ہوا کی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل اہم قومی معاملات ہیں جو سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔
شرکاء نے خاص طور پر امریکہ، یورپ اور ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ہندوستان کی طرف سے علاقائ بالادستی کے منصوبوں کے باعث کشمیر کے محاصرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانیت سوز بحران اور آنے والے دنوں میں خطوں پر اس کے اثرات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اس میٹنگ میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ بھارت کی ریاست اور معاشرے پر ایک گہرا مطالعہ کیا جائے اور اس کی موجودہ اور مستقبل کی پالیسیوں پر ہندوتوا کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے۔
شرکاء نے پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بڑھانے، حکومت کو ملک میں تعلیمی شعبے پر زیادہ توجہ دینے، مختلف سطحوں پر تعلیمی نصاب کو بہتر بنانے اور انسانی ترقی کو فروغ دینے کے لیے معیاری تربیتی اداروں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔
مجموعی طور پر مقررین اس بات پر متفق تھے کہ ملک میں تبدیلی صرف تعلیم کے ذریعے ہی لائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی نئی نسل نظریہِ پاکستان سے بخوبی واقف نہیں ہے۔ مقررین کا خیال تھا کہ تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر اس انتہائی اہمیت کی حامل ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور تعلیمی پالیسی کو قومی مقاصد سے مطابقت دیتے ہوئے اسے قومی تعمیرِنو کے لیے ایک راستے کے طور پر متعین کرنا چاہیے۔
جواب دیں