‘اسرائیلی جارحیت: تناظر، پالیسیاں، اور ابھرتا ہوا منظر نامہ’

‘اسرائیلی جارحیت: تناظر، پالیسیاں، اور ابھرتا ہوا منظر نامہ’

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے فلسسطین کے موقف کو تقویت ملی ہے ؛ اسرائیل انسانیت کا دشمن بن کر سامنے آیا ہے

فلسطینی علاقوں میں نسلی امتیاز ، اجتماعی سزاوًں اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں مصروف , اپنے انتہا پسندانہ مذہبی نظریاتی عقائد کی اندھا دھند تقلید کرتا اسرائیل عالمی سطح پر انسانیت کا دشمن بن کر ابھرا ہے۔ مغربی میڈیا کی طرف سے وسیع پیمانے پر پھیلائے جانے والی غلط معلومات کے باوجود اسرائیل کی حقیقت اب کھل کر سب کے سامنے آ گئی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی مزاحمت کی حمائیت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل کی حمایت کرنا یا اس معاملے میں غیر جانبدار رہنا اس کے جرائم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔

اس بات کا مشاہدہ  18 اکتوبر 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں’اسرائیلی جارحیت: تناظر، پالیسیاں، اور ابھرتا ہوا منظر نامہ’ کے موضوع پر  منعقدہ ایک سیمینار کے دوران کیا گیا۔ اس نشست میں ممتاز مقررین نے خطاب کیا جن میں پالیسی تجزیہ کار اور اسٹریٹیجسٹ سید محمد علی، ڈائریکٹر ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء اویس انور، نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی  اسلام آباد کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خرم اقبال، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن،  اور سابق سفیر سیّد ابرار حسین شامل تھے۔

مقررین نے نوٹ کیا کہ اسرائیل کے مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کی ابتدا  بیسویں صدی کے اوائل کے واقعات سے ہوتی ہے جن میں بالفور اعلامیہ اور 1948 میں فلسطینیوں کی نقل مکانی شامل ہے۔ غزہ میں بڑھتے ہوئے تشدد اور تباہی کے تناظر میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی فوجی جارحیت کے باعث 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 42,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ اس میں ہر ایک اسرائیلی کے مقابلے میں 22 فلسطینیوں کی ہلاکت کا تناسب ہے۔

مقررین کے مطابق اس پیمانے پر جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی یہ تباہی دراصل اسرائیلی نظریاتی اہداف کے عین مطابق ہے۔ ان اقدامات نے اندرونی سیاست میں  وزیر اعظم نیتن یاہو کی مقبولیت کو تقویت بخشی ہے، جو 7 اکتوبر 2023 سے پہلے تنزلی کا شکار تھی، لیکن اب اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا  ہے ، جس سے انہیں  اس جنگ کو طول دینے کی ترغیب ملی ہے۔

اسرائیل کی فوجی حکمت عملی کے پیچھے کارفرما  محرکات کے بارے میں مقررین نے نشاندہی کی کہ یہ سیاسی مقاصد کے بجائے انتہا پسندانہ نظریاتی مقاصد سے زیادہ متاثر ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل کے بنیادی مقاصد مشرق وسطیٰ میں شناخت کی سیاست کو مضبوط کرنا، افراتفری کی صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانا، فلسطینی معیشت کو نقصان پہنچانا، مزاحمت کرنے والی  طاقتوں کی ساختی اور دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنا، ایران کو تنہا کرنا اور علاقے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جنگ پانچ مختلف میدانوں میں لڑی جا رہی ہے، یعنی انٹیلی جنس، اقتصادیات، سفارت کاری، فوجی مہمات اور معلومات۔

بین الاقوامی پہلو پر بات کرتے ہوئے مقررین نے نوٹ کیا کہ یہ تنازعہ جاری رہنے کا امکان ہے لیکن جغرافیائی طور پر زیادہ پھیل نہیں سکتا کیونکہ مشرق وسطیٰ سے عالمی توانائی کی فراہمی کے بارے میں خدشات اور ایران میں اصلاح پسند عناصر کی موجودگی اس کے جغرافیائی پھیلاوً کو روکتی ہے۔ ایک اور اہم  پیش رفت حماس کی مزاحمت کے لیے عوامی پیمانے پر بڑھتی ہوئی حمائیت ہے، جو کہ ایک جائز مقصد کے حصول کے لیے ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق مزاحمت کے زُمرے میں آتی ہے۔ اسرائیلی جرائم کی شدت براہِ راست فلسطینی مزاحمت کے لیے عوامی حمایت میں اضافہ کر رہی ہے اور اس کے مقصد کو تقویت دے رہی ہے۔

مقررین نے جاری تنازعے سے نمٹنے میں بین الاقوامی قانونی فریم ورک کی کمزوری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اسرائیل نہ صرف بین الاقوامی قانون اور عالمی اداروں کو مسترد کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں ، جیسے جنگجو اور غیر جنگجو کے درمیان فرق کرنے اور تنازعات میں تناسب کی پابندی کرنے کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل اپنے نسلی امتیاز اور اجتماعی سزا کے جواز کے لیے اپنی قانونی تعریفوں پر انحصار کرتا ہے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو جوابدہ بنائے بغیر ایک منصفانہ بین الاقوامی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔

خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ غزہ میں جاری صورتحال وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کا حصہ ہے، جس کے جلد حل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی، خاص طور پر تب جبکہ اس میں بیرونی حرکیات شامل ہیں۔ جہاں مغربی میڈیا فلسطینیوں اور تنازعات کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہا ہے، وہیں بدلتی ہوئی صورتحال نے اصل حقیقت کو واضح کر دیا ہے، جو مغرب میں نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے ، اور ممکنہ طور پر عالمی نقطہ نظر کو تبدیل کر رہا ہے۔ نتیجتاً، بھاری نقصانات کے باوجود، حماس اپنے مقصد کی طرف خاطر خواہ بین الاقوامی توجہ دلانے میں کامیاب رہی ہے۔

رحمٰن نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت کرنا یا اس کے جنگی جرائم اور نسل کشی کے سلسلے میں غیر جانبدار رہنا اس جرم میں ملوث ہونے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ یہ مظالم اس حد سے آگے بڑھ چکے ہیں جہاں موجودہ تعلیمی اور قانونی اصطلاحات اسرائیل کی غیر انسانی پالیسیوں کی شدت کو بیان کر سکیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو فلسطین کے بارے میں اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے اور حالات کی تبدیلی کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے