اسلامی احکام کے تحفظ کے آئینی اور قانونی طریقوں کاجائزہ
اسلامی احکام کے تحفظ کے آئینی اور قانونی طریقوں کاجائزہ
جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور
(عالم جج، وفاقی شرعی عدالت، اسلام آباد، پاکستان)
قرآن مجید اور سنت مطہرہ کے ساتھ آئین پاکستان یا دیگر قوانین پاکستان کے مابین تعلق کے متعلق وقتاً فوقتاً بعض قانونی، علمی اور عملی مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ جن سے یہ اضطراب پیدا ہوتا ہے کہ اسلام یہ چاہتا ہے اور یہ ہونا چاہیے جبکہ آئین پاکستان یا قوانین پاکستان اس سے ہٹ کر کچھ اور مطالبہ کرتے ہیں۔ ان مسائل کے متعدد سلیس جواب ہوسکتے ہیں۔ لیکن بطور مسلمان اور پاکستانی اس کا ایک جواب ہمیں اپنے اندر بھی تلاش کرنا ہوگا کہ ہم کس سطح کے مسلمان ہیں؟ ہم جس سطح کے مسلمان ہوں اتنی ہی خواہشات رکھنی پڑیں گی اور مسائل کو اسی انداز سے دیکھنا اور حل تلاش کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کریں گے تو نفاذ اسلام کی ہماری ہر کاوش اور خواہش خیالی، غیر حقیقی اور بسا اوقات منافقانہ بھی تصور کی جا سکے گی۔
دوسری بات یہ کہ مملکت خداداد پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو عالم اسلام کے ممالک میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں اور اگر ان کا پچھلے پچاس سال کے عرصہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان ان معدود چند مسلم ریاستوں میں سے ہے جہاں آئین اپنا وجود رکھتا ہے۔ اس ملک کی یہ خوش قسمتی بھی ہے کہ یہ ملک ایک جمہوری آئین کے تحت چل رہا ہے ۔ بطور قوم مسلم امہ میں یہ ہماری انفرادی اور اعلی حیثیت ہے۔ جو یقیناً کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ دنیا میں کئی مسلم ممالک ہیں ، ان میں سے کئی دنیاوی معاملات میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں اور کچھ ہم جیسے اور دیگر ہم سے گئے گزرے بھی ہیں لیکن ان میں یہ آئینی صورتحال نہیں ہے ۔
آئین کی دستاویز در حقیقت ایک معاشرتی معاہدہ (Social contract)پر تشکیل پاتی ہے۔ ہم پاکستان کے آئین کی فکری بنیادوں اور اصولوں کو سمجھ لیں تو کئی امور کی فہم آسان اور سہل ہوجاتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے آئین کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1۔ پہلا یہ کہ یہ ہمارا آئین اسلامی (Islamic)ہے۔
2۔ دوسرا یہ کہ یہ جمہوری (Democratic)ہے
3۔ تیسرا یہ کہ یہ وفاقی (Federal) ہے
اس آئینی تکون (Triangle of Constitution) کو سمجھ لیا جائے تو قانون کے اساتذہ، محققین اور طلبہ کے اندر "بظاہر الجھے ہوئے مسائل” کو سلجھانے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔
دوسری یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عصر حاضر میں کسی بھی مملکت کو عملی طور پر چلانے کے لیے دو نظریات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔ یعنی:
1۔ جمہوریت (Democracy) اور
2۔ دستوریت (Constitutionalism)
ریاستوں اور سیاست کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو ڈیموکریسی کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن آئینیت کی افادیت پاکستان جیسے ملک میں ایک انتہائی اہمیت کی حامل ٹھرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن اس میں ایک موروثی (Inherent)اور بنیادی نقص موجود ہے۔ اس نقص کو جسے اکثریت کا المیہ(Dilemma of majority) کہا جاتا ہے، یہ مغرب میں بھی ہے اور ہمارے ہاں مشرق میں بھی ہے۔ جس بھی "جمہوریت” کا جائزہ لیا جائے اس میں "جو اکثریت کہہ رہی ہے وہ بات مانی جائے” یہ ایک بہت بڑی خوبی بھی کہلائی جاتی ہے اور بہ عین اس ہی وقت ایک بنیادی نقص بھی ہے۔ جمہوریت پر کئے اعتراضات میں سے سب سے بڑا اعتراض یہی ہے۔
اس حوالے سے اگر دنیا میں موجود معاشروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ابتدا سے اس وقت تک دنیا میں دو قسم کے معاشرے پائے جاتے ہیں۔
اولاً: یکساں معاشرے جنہیں انگریزی میں (A society of relatively homogeneous population) کہا جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں زیادہ تر آبادی ایک ہی سوچ کی بس رہی ہوتی ہے، جہاں ایک جیسی خصوصیات کے لوگ بہت زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل معاشرہ، یا ایک جیسی زبان بولنے والوں کا معاشرہ، یا یکساں تاریخ رکھنے والوں کا معاشرہ۔ ایسے معاشروں میں جمہوریت کا یہ نقص واضح طور پر سامنے نہیں آ پاتا ۔
ثانیاً: منقسم معاشرہ جہاں پر معاشرے میں مختلف تقسیمیں اور نوعیتیں نہ صرف پائی جاتی ہیں بلکہ یہ اختلاف اکثر بہت گہرا بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ گروہ اختلاف کے باوجود ایک متحد قوم کی شکل میں رہنے پر راضی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ملک کا معاملہ ہے کہ ہماری آبادی زبانوں کے لحاظ سے متنوع ہے، اس ہی طرح سماجی سطح کے پیش نظر بھی افراد میں یکسانیت نہیں، جبکہ اس کے ساتھ سیاسی تقسیم بھی موجود ہے اور مذہبی طور پر کسی حد تک یکسانیت کے باوجود ذیلی تقسیم موجود ہے۔ اس طرح کی دیگر تقسیمات بھی ہمارے معاشرے سے جڑی ہیں۔
ایسے معاشرے میں جہاں تقسیم در تقسیم موجود ہو وہاں آئینیت کو جمہوریت پر فوقیت دئے بغیر معاملات سیدھے نہیں چل سکتے ۔ جمہوریت کی نمائندگی مجلس شوریٰ (Parliament) میں موجود ہے۔ اس لیے اہم ترین فیصلے وہیں سے ہوتے ہیں، اور ہونے بھی چاہئیں ۔ قانون سازی کے لیے یہ ادارہ ہی اعلیٰ ترین ہے ۔ لیکن اس کے اوپر آئین کی تہہ یا حد ہمارے ہاں لازم وملزوم کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس تقسیم اور اختلافات کے تناظر میں اگر ہم لوگ اپنی سیاست کو دیکھیں جہاں سیاسی اختلافات بڑھ چڑھ کر سنجیدہ تنازعات بن جاتے ہیں اور ایک نازیبا معاشرتی شکل اختیار کرلیتے ہیں، ان سب کا حل شاید ہمیں پارلیمنٹ کے فلور پر نظر نہیں آتا ۔ جب مسائل کا حل مجلس شوری سے نہیں ملتا تو آئین اس مسئلے کا حل دے دیتا ہے۔ لہذا ہمارے جیسے معاشروں میں آئین کو جمہوریت پر فوقیت رہتی ہے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ فوقیت رہنے دینی چاہیے۔
پاکستان میں مارشل لا لگتے رہے جو کہ ہمیشہ غیر قانونی ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود گاڑی واپس اپنے ٹریک پر آتی رہی ہے۔ کیوں ؟کیونکہ ہمارے پاس آئین الحمدللہ موجود ہے ۔ یہ آئین کا ہی کمال ہے کہ اگر کوئی طالع آزما آ بھی جائے تو زیادہ دیر رہ نہیں سکتا، اس طالع آزما (Dictator) کے غلط اقدام کی یہ آئین تصحیح کرتا رہتا ہے۔
یقیناً بطور مملکت ہمارا نظریہ اسلام ہے لہذا ہمارا آئین بھی اسلامی ہے۔ اس آئین میں پہلا اصول جسے نمایاں کیا گیا ہے وہ یہ کہ "حاکمیت اللہ کی ہے” یعنی (Sovereignty belongs to Allah)۔ یہ ایک عام جملہ نہیں ہے۔ یہ اس آئین کی پشت پر اصولی فلسفہ ہے۔ آپ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے آئینِ پاکستان کی شق 2 (الف) کا مطالعہ کریں تو اس کے سرسری سے مطالعے سے واضح ہوگا کہ جن افراد نے کانسٹیٹیوشن ڈرافٹ کیا انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ بنیادیں فراہم کیں۔ اس کا پورا نظریاتی پس منظر یا ویژن قیامِ پاکستان کے مقصد سے جوڑا گیا جو کئی سال قبل پیش کیا گیا تھا۔ جاننا چاہیے کہ یہ سفر فقط آئین ساز اسمبلی کے 1949ء میں قرارداد مقاصد کے پاس کرنے سے شروع نہیں ہوا۔ بات اس سے پہلے کی ہے ۔ اس کی کڑیاں مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کو ۱۹۳۷ء میں لکھے گئے "خطوط "میں بھی ملتی ہیں۔۱ وہاں یہ ذکر ملتا ہے کہ جو بھی ریاست برصغیر کے مسلمان بنانا چاہ رہے ہیں اس کی رہنمائی علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ تھی :
“For Islam the acceptance of social democracy in some suitable form and consistent with the legal principles of Islam is not a revolution but a return to this original purity of Islam.”
چند سالوں کے بعد اس ریاست کے قیام کے یہ ہی اغراض ومقاصد قرارداد مقاصد میں کچھ وضاحت سے بیان کیے گئے جو کہ بعد ازاں ہمارے آئین میں درج کردیے گئے ۔
لہذا آئین کی شق 2 (الف ) یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن اس حد تک کہ جو حاکمیت اعلی ٰہوگی وہ اللہ کے سپرد ہوگی اور آپ کو بطور انسان اللہ نے یہاں اپنا نائب (Vicegerent) بنایا ہے۔ اس شق کے پیش نظر آپ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن قرآن و سنت کے متصادم یعنی بالکل خلاف کوئی آئین سازی نہیں کر سکتے ۔ اس سلسلے میں اہم ذمہ داری مقننہ پر آتی ہے کہ وہ اس امر کا خود سے خیال رکھیں کہ کوئی قانون سازی اللہ کے احکام کی خلاف ورزی میں نہ کی جائے ۔ یہ ہمارے آئین کا اصل الاصول (Basic principle)ہے یعنی کہ جب بھی قانون سازی ہو تو پارلیمنٹ یقینی بنائے گی کہ اس کی قانون سازی قرآن مجید اور سنت مطہرہ کی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔
اسلامی نظریات وتعلیمات کے تحفظ کے ضمن میں قانون سازی کے متعلق آئین میں دوسری اہم بات آئین کے دوسرے حصہ (ix) میں آرٹیکلز 227 سے 231 تک میں بیان ہوئی ہے۔ یہ آرٹیکلز اسلامی نظریاتی کونسل (Council of Islamic Ideology) کے متعلق بحث کرتے ہیں۔ ہمارے آئین میں اولاً تو یہ اصول وضع کردیا گیا ہے کہ آپ کو، بذریعہ آپ کے منتخب نمائندوں کے، اختیارات تو تفویض کیے گئے ہیں کہ آپ قانون سازی کریں مگر یہ قانون سازی اس دائرہ کار میں کریں جو آئین میں مذکور ہے یعنی وہ قرآن وسنت کے متصادم نہ ہو۔ پھر بھی اگر قانون سازوں کو کہیں یہ ابہام ہوکہ ہمارا پیش کیا جانے والا قانون اسلامی اصولوں کے مطابق ہے یا اس دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں، تو وہ ایک آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل سےآئینی مشورہ لے سکتا ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں وہ اسلامی ہے یا نہیں اور اگر وہ تعلیمات کے لحاظ سے کوئی ابہام رکھتا ہو تو کیسے وہ دور ہوجائے گا۔
مختصراً یہ کہ اس اسلامی ریاست کے قانونی ڈھانچے (Legal framework) کو اسلام کے دائرے میں رہنے کے لیے ایک اصول کے بعد ایک طریقہ کار بھی دے دیتا ہے جو آئین میں درج دوسرا عملی اقدام ہے ۔
تیسری صورت یہ بھی تھی کہ عین ممکن ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے یا تو مانی نہ جائے یا سمجھی نہ جائے۔ لہذا ان مذکورہ صورتوں میں اگر پارلیمنٹ سے کوئی قانون پاس بھی کردیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے متصاد م ہو تو اس صورت میں 2۴ کروڑ کی آبادی میں سے کوئی بھی پاکستان کا شہری یہ سمجھتا ہو کہ پاس کردہ قانون یا اس کی کوئی شق قرآن و سنت کے متصادم ہے اور وہ شہری دلائل پر مبنی یہ خیال رکھتا ہو کہ یہ قانون انہیں وہ حقوق نہیں مہیا کر پارہا جو انہیں قرآن و سنت نے دیے ہیں یا وہ قانون یا کسی قانون کی شق قرآن وسنت سے متصادم ہے تو اس صورت میں وہ ایسے قانون یا اس کی شق کو وفاقی شرعی عدالت (Federal Shariat Court) میں آرٹیکل 203-D کے تحت چیلنج کر سکتا ہے ۔ ایسے قوانین کو چیلنج کرنے اور اپنے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لیے قرآن وسنت سے دلائل دینا ضروری و لازمی ہیں۔ ایسے قانونی معاملات کو افراد کی خواہشات ، جذباتی وابستگی یا فتوی جات کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔ دلائل میں وضاحت کی جاتی ہے کہ قرآن و سنت کی فلاں فلاں دلائل کی بنیاد پر یہ فلاں قانون یا اس قانون کی فلاں شق قرآن وسنت یا اسلامی احکام (Islamic injunctions) سے متصادم ہے ۔ اور اس کے بعد میں یہ ممکن ہے کہ شریعت کورٹ کے فیصلہ سے کوئی سائل مطمئن نہ ہو تو وہ زیر دفعہ (h)203 سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ (Supreme Court Shariat Appellate Bench) اپیل دائر کرسکتا ہے۔
- مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئین پاکستان نے قانون سازی کے دارئرۂِ کار کو اسلامی تعلیمات پر جانچ پرکھ کے لیے تین درجات رکھے ہیں۔
- آئین کا آرٹیکل 2-A مملکت خداداد پاکستان میں قانون سازی کے راہنما اصول متعین کرتا ہے۔ یعنی guiding and governing principlesبھی اس میں موجود ہیں۔
- قرآن وسنت سے متعلق راہنمائی لینے کا طریقہ کار یعنی آرٹیکل 227 کے تحت قرآن وسنت پر چلنے کے لیے مشاورت لینے کے اصول یعنی mechanism for taking Islamic advice موجود ہیں۔
- کسی بھی قانون کی قرآن وسنت کی روشنی میں درست ہونے کے اصول آئین کے باب تین الف (Chapter 3A) کے تحت بھی موجود ہیں۔
- آئین پاکستان ہمیں وہ اصول مہیا کرتا ہے جو در حقیقت ریاست پاکستان کو اسلامی دائرہ کار میں رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔یہ ریاست پاکستان کے آئین کی ایک انفرادی اور اسلامی دنیا میں ایک ممتاز حیثیت ہے۔ جس پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی دانست کی پچاس سالہ کاوش کا نتیجہ ہے۔
(یہ تحریر فاطمہ جناح ویمن یونی ورسٹی میں آئی پی ایس کے اشتراک سے منعقد کانفرنس بتاریخ ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں پیش کیے گئے خطاب پر مبنی ہے۔)
۱علامہ اقبالؒ کے محمد علی جناحؒ کو بالترتیب مؤرخہ 28 مئی 1937 اور 21 جون 1937 کو لکھے گئے خطوط مرکزیت رکھتے ہیں۔ جن کا تذکرہ جی الانہ نے اپنی کتاب Pakistan Movement: Historic Documents شائع شدہ جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات (1969) میں کیا ہے۔ ص 129-133
جواب دیں