’تیسری بی جے پی حکومت: انڈیا کی کشمیر پالیسی اور اس کا مستقبل کا آؤٹ لک‘
بی جے پی اور کانگریس کی یکساں پالیسیوں کے باعث جدوجہدِ آزادیِ کشمیر کا تسلسل جاری ہے گا: ماہرین
بھارت میں عام انتخابات کے بعد طاقت کی حرکیات قدرے تبدیل ہونے کے باوجود تحریکِ آزادیِ کشمیر کا تسلسل جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد میں حکومت کررہی ہے، لیکن بی جے پی اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں ہی کشمیر سمیت تمام خارجی اور داخلی امور میں یکساں پالیسیوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔
اگرچہ ہندوستانی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، لیکن مختلف اندرونی عوامل اور بیرونی ماحول میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ لامحالہ صورتحال پر اثر انداز ہوں گی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے محرک کا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ دریں اثنا، ہندوستانی پالیسیوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا، طویل مدتی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور ایک مضبوط حکمت عملی پر مبنی، کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیرِ اہتمام 23 جولائی 2024 کو منعقد ہونے والی 23 ویں آئی پی ایس ورکنگ گروپ آن کشمیر کی میٹنگ کے دوران کیا گیا جس کا عنوان ’تیسری بی جے پی حکومت: انڈیا کی کشمیر پالیسی اور اس کا مستقبل کا آؤٹ لک‘ تھا۔ اس سیشن کی نظامت سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین نے کی، جبکہ اس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سیکیورٹی تجزیہ کار ڈاکٹر سید محمد علی ، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ملٹی ٹریک ڈائیلاگ ڈویلپمنٹ اور ڈپلومیٹک اسٹڈیز ڈاکٹر ولید رسول ، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر راجہ سجاد محمد خان ، انقرہ میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی ، اور سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر اور آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی ایٹ فرزانہ یعقوب نے خطاب کیا۔
گفتگومیں انتخابات کے بعد بی جے پی کی واضح طور پر کمزور پوزیشن کے باوجود مقبوضہ کشمیر پر تسلط قائم کرنے کی بھارت کی مستقل پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے قانون سازی میں تبدیلیوں کی سہولت کے لیے انتظامی اختیارات وزیر اعلیٰ سے لیفٹیننٹ گورنر کو منتقل کر دیے ہیں۔ یہ اقدام، جوستمبر 2024 میں متوقع قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے پیش نظر کیا گیا، کشمیر پر غیر قانونی اختیار حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
تاہم کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے لیے اپنے مقصد پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ کشمیر میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں نمایاں اضافہ –جو کہ 2019 ءمیں 19.6% سے بڑھ کر 2024 ءمیں 50.86% تک پہنچ گیا – ووٹنگ کے استعمال کو بقا اور مزاحمت کے ایک ذریعہ کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، بھارت میں مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کشمیریوں کے لیے ایک انتباہی مثال کے طور پر کام کرتی ہے کہ وہ اپنا مستقبل بھارت کے ساتھ نہ دیکھیں۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بی جے پی کی مقبوضہ کشمیر پر تسلط جمانے کی پالیسی کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارتی پالیسیاں کشمیریوں کے حق ِخودارادیت کے مقصد کو نا قابلِ حصول بنا کر، انہیں بین الاقوامی سطح پر نظر انداز ہونے کا احساس دلانے اور بھارتی تسلط کو قبول کرنے کی طرف ان کی ذہنیت کو بگاڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دہلی کشمیریوں کو یہ یقین دلا کر گمراہ کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے کہ ان کا مستقبل بھارت کے ساتھ ہے اور بھارت نواز کشمیری جماعتوں پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ بھارتی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوں۔ مزید برآں، بھارت پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت کرنے سے قاصر اور ان کی جدوجہد کے جواز کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے بیانیے گھڑتا ہے۔ اس کی حکمت عملی میں مزاحمت کو سزا دینا اور اپنے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے میڈیا کا استعمال شامل ہے۔
پاکستان کو قانونی، سماجی، سیاسی، اقتصادی، سلامتی، سفارتی، تارکین وطن، نظریاتی، فکری اور تاریخی سمیت تمام محاذوں پر بھارتی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ اس میں بین الاقوامی فورمز میں آزاد جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کا فائدہ اٹھانا، کشمیری نوجوانوں کو ایک معاون بیانیہ بنانے کے لیے متحرک کرنا، اور امید اور اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے نوجوان سیاسی کارکنوں کو مصروفِ عمل کرنا شامل ہے۔ بھارتی مظالم کو اجاگر کرنا، کثیرالجہتی فورمز کا استعمال اور تارکین وطن کو متحرک کرنا بھی ضروری ہے۔ مزید برآں، ادب اور فلم کے ذریعے کشمیر کی نرم طاقت کو بروئے کار لایا جانا چاہیے، اور بھارتی مظالم سے متعلق تاریخی اعداد و شمار کو احتیاط سے مرتب کیا جانا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی کو عالمی، علاقائی، مقامی اور مزاحمتی جہتوں پر توجہ دینا چاہیے۔
اپنے اختتامی کلمات میں، خالد رحمٰن نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر میں موثر پالیسی سازی اور پاکستان کے لیے ایک مضبوط بین الاقوامی کردار ادا کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر بہت ضروری ہے۔ انہوں نے قومی کشمیری جذبات کو دوبارہ زندہ کرنے اور امید کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے کمزوریوں کی بجائے طاقتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں راستہ بنانے کے لیے ایک فعال موقف برقرار رکھنا ہو گا۔
جواب دیں