’جنسی متغیر افراد کے حقوق‘
جنسی طور پرمتغیر افرادکے مسئلے میں بیرونی مذموم مقاصد کی بجائے مقامی نقطۂ نظر کو اہمیت دی جائے
ایک ایسے ماحول میں جہاں صنفی متغیر افرادکے حقوق کے سوال نے پولرائزیشن کو ہوا دی ہوئی ہے، علمی اور پالیسی اداروں کومشترکہ حقائق تک پہنچنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی مشترکہ بنیادہی اس مسئلے کی مخصوص نوعیت کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے، جس کی مدد سے ایک ایسا حل نکالا جا سکتا ہے جو معاشرے کے اصولی ڈھانچے کے مطابق ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کا امین بھی ہو۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ، 2018 نے نہ صرف اس کے تصوراتی اور تصریحی پہلوؤں پر بلکہ اس کےلیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار میں موجودبے ضابطگیوں پر بھی بحث کو تحریک دی ہے۔ اس ایکٹ کی روح اسلامی اقدار اور پاکستان کے ثقافتی اصولوں کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔ تاہم، ان افراد کے تحفظ کے لیے قانون کی ضرورت کو کم نہیں کیا جانا چاہیے جو یا تو دونوں جنسوں کے خصائل کے حامل ہیں یا صنفی شناخت کی خرابی کا شکار ہیں۔ ان مسائل اور ابہام کو حل کرنے میں رد عمل اختیار کرنے کی بجائے ان کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک فعال طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)اسلام آباد میں 22 ستمبر 2022 کو منعقدہ ایک مشاورتی اجلاس میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ’جنسی متغیر افراد کے حقوق‘۔ اس اجلاس کی نظامت ندیم فرحت گیلانی، سینئر ریسرچ آفیسر آئی پی ایس نے کی، جبکہ کلیدی مقرر کی حیثیت سےنیورولوجسٹ ڈاکٹر طلحہ سعد نے اجلاس سے خطاب کیا۔دیگر مقررین میں خالد رحمٰن ، چیئرمین آئی پی ایس؛ ایمبیسیڈر(ر) صفدر حیات؛ سید ابو احمد عاکف، سابق وفاقی سیکرٹری؛ حماد حسین بٹ اور محمد بن ساجد، درخواست گزار وفاقی شرعی عدالت ؛ اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچ ونگ سے ریسرچ اسسٹنٹ طاہر شاہ اور عرفان فضل؛ ڈاکٹر صائمہ اسماء، وزٹنگ پروفیسر، نمل؛ ڈاکٹر شگفتہ عمر، اسسٹنٹ پروفیسر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد؛ شعیب مدنی، ڈائریکٹر،شعور میڈیا نیٹ ورک؛ عابدہ فرحین، چیئرپرسن، ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ۔ ڈاکٹر عبداللہ فیضی، لیکچرر، کرٹن یونیورسٹی ملائیشیا اور استنبول زیم یونیورسٹی سے طلحہ عمران اور مریم خان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یہ میٹنگ اس مشاورتی سلسلے کا حصہ تھی جوآئی پی ایس اس مسئلے پر منعقد کر رہا ہے اور جس میں قانونی، طبی، نفسیاتی، اور سماجی شعبوں کے ماہرین بشمول صنفی متغیر افراد پہلے ہی اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، خالد رحمٰن نےایسی درست قانون سازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی جو مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں حقیقی صنفی متغیر افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے ایک بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو مقامی حقائق سے ترتیب دیا گیا ہو اور پولرائزڈ آراء کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کرے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایک منطقی بیانیہ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے باشعور مذہبی طبقے کو بھی قانون سازی کے مشاورتی عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسے بیانیے کا مؤثر جواب دے سکیں جو معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ڈاکٹر طلحہ سعد نے کہا کہ جو لوگ اپنے جنسی اعضاء کے حوالے سے کسی قسم کے ابہام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، وہ غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ تاہم، میڈیکل سائنس کی جدید ترقی نے نہ صرف ان کی جنس کا تعین کرنا ممکن بنایا ہے بلکہ ضرورت کے مطابق مخصوص طریقۂ کار کے ذریعے اسے ایڈجسٹ بھی کیا ہے۔ ایسے افراد کے حقوق کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ جو لوگ خود کو اپنے اصل سے مختلف سمجھتے ہیں جو وہ ہوتے ہیں تو ان کابھی علاج معالجہ کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں، نفسیاتی مشاورت یا تھراپی ایسے افراد کو ان کی فطرت سے ہم آہنگ ہونے میں مدد دیتی ہے۔ صرف 0.5فیصدکی معمولی تعداد پھر بھی اس عارضے کا شکار ہو سکتی ہے جس میں کسی شخص کا طرز عمل اس کی جسمانی نشوونما کے مطابق نہیں ہوتا ۔ مشاورت میں حصہ لینے والوں نے صنفی شناخت کے عوارض میں مبتلا 0.5 فیصد کی معمولی اقلیت کا حل تلاش کرنے میں طبی تحقیق کے کردار پر زور دیا، جبکہ اس طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ مسلم ماہرین ایسا حل وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیں جو اسلامی اقدار اور ثقافتی توقعات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
مزید یہ بات بھی گفتگو کا حصہ رہی کہ کئی پہلوؤں سے بے خبر ہونے کے باعث عوام میں اس مسئلے سےآگاہی کا فقدان ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معلومات کے اس خلا کو ہدف بناتے ہوئے مختلف سطحوں پر فکری بات چیت اور تعاون کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔ انہوں نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے تعاون دنیا میں درپیش مسائل کےحل کے لیے بھی اہم ہیں۔
بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو مغربی معاشروں کے بعض طبقات کی مہم کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک ایسا مقامی بل لانے کی ضرورت ہے جو سماجی اور اسلامی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو وسعت دی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ دیگر اسلامی ریاستیں اس مسئلے سے کس طرح نمٹ رہی ہیں۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، شرکاء نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان میں مخنث افراد کا مسئلہ کثیر جہتی ہے اور اس بحث کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید سفارش کی کہ تمام متعلقہ اداروں کو اس عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے آنا چاہیے تاکہ موجودہ قانون سازی کی خامیوں کو دور کرتے ہوئےمجموعی تفہیم کو پیدا کیا جا سکے۔
شرکاء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت اور معاشرے کو اجتماعی طور پر غیر ملکی قوتوں اور لابیوں کے اثرات اور ایجنڈوں پر نظر رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان میں پولرائزڈ ماحول خطرناک ہو سکتا ہے۔
جواب دیں