دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۵۰ سال (۱۹۷۳ء تا ۲۰۲۳ء)
دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۵۰ سال (۱۹۷۳ء تا ۲۰۲۳ء)[1]
دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ء کے تین نمایاں ادوار
پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام[2]
پاکستان کئی اعتبار سے ایسا ملک ہے جہاں بہت سے ممالک اور عناصرکی مختلف النوع دلچسپیاں موجود ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ ملک وسط ایشیا، روس، چین اور سائبریا تک کے برفستان میں سال بھر داخلے کاایک عمدہ دریچہ ہے۔ کثیرآبادی کے سبب، کثیر قومی تجارتی اداروں کے لیے یہ ملک ایک وسیع منڈی ہے۔ موجودہ نظریاتی مغرب کے لیے اس ملک کا وجود ایک نظریاتی سانحے کے طور پر دیکھا جا تا ہے کیونکہ اس میں امت مسلمہ کو یکجا کرنے کی بے پناہ خواہش پائی جاتی ہے۔ان تینوں عامل قوتوں — تزویراتی، اقتصادی اور نظریاتی— کے لیے اندرون ملک کام کرنے والے دو عناصر بڑے اہم ہیں:
۱۔ دن بدن مغرب زدگی کی طرف مائل بہ سفر نظام تعلیم اور
۲۔ غیرملکی سرمایے کی مدد سے سول سوسائٹی کے نام پر قائم وہ غیرملکی ادارے جو گزشتہ تین عشروں میں وسیع پیمانے پر جڑ پکڑ چکے ہیں۔
ان عوامل کو نہ تو دستوری امور سے لاتعلق کرنا ممکن ہے اور نہ موجودہ سیاسی اور تزویراتی کینوس پر ان سے اعراض کوئی دانشمندی ہے۔ دستور پاکستان میں اسلامی شقوں کے مطالعے کا ایک خلاصہ آئیندہ سطور میں پیش نظر ہے ۔
۲۔ اسلامی اور لادینی فکر میں دستوری کشمکش کے تین عہد
اس عنوان کو تین عہد میں تقسیم کر کے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ جمہوری دور : ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۷ء
۲۔ دورِ فکر اسلامی : ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۹ ء
۳۔ لادینیت کے لیے کوشاں عناصر کا دور : ۱۹۹۹ء تا ایں دم
(۱) جمہوری دور : ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۷ء
یہ دور سیاسی اقتدار کے لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار سے عبارت ہے۔ اسی اوّلیں دور میں ۱۹۷۳ء کا دستور منظور ہوا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ متفقہ دستور ہے۔ گزشتہ دونوں دساتیر [ ۱۹۵۶ ، ۱۹۶۲] کے مقابلے میں اس میں اسلامی فکر کافی زیادہ موجود تھی۔ اس فکر کے حجم پر توگفتگو ہو سکتی ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں کئی باتیں توجہ طلب ہیں لیکن یہ مسئلے کا سیاسی پہلو ہے۔ سیاسی عہد معدوم ہوتے رہتے ہیں۔ اصل اہمیت ان دستوری اصولوں کی ہوا کرتی ہے جو دوامی ہوتے ہیں۔ اگر ان پر نظر نہ رکھی جائے اور محض وقتی سیاسی فوائد کو مطمح نظر بنایا جائے تو اس سے وسعت نظر محدود ہو کر رہ جاتی ہے جس کے نتیجے میں نقصان کی تلافی نسلوں کو کرنا پڑتی ہے۔ دستور ۱۹۷۳ء پر ذوالفقار علی بھٹو کی تصورات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اس عہد کا مطالعہ ان کی شخصیت اور تصورات پر نظر ڈالنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔
الف۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت: ذوالفقارعلی بھٹو کی شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک پہلو زندگی کے متعلق ان کے تصورات کا ہے۔ وہ کس طرح کی زندگی خود گزارتے تھے؟ ملک میں لوگوں کے رہن سہن اور بود و باش کو وہ کس رخ پر لے جانا چاہتے تھے؟ ان کے ذاتی میلانات کیا ظاہر کرتے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب کچھ بہت زیادہ تحقیق طلب اور الجھا ہوا ہرگز نہیں ہے۔ مذہب کو وہ فرد کی زندگی کا نجی معاملہ قرار دیتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاستی سطح کے مسائل کووہ عمومی فکر انسانی ہی کے ذریعے حل کرنے کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ وحی الٰہی یا الہامی راہنمائی سے روشنی لینے کا تصور فکری حد تک تو ان کے ہاں واضح ہے لیکن یہ ان کے نزدیک کوئی اساسی مأخذ نہیں ہے۔
غالباً اس کی بڑی وجہ اسلام پر ان کا ٹھوس مطالعہ نہ ہونا ہے۔ اور جس حد تک ان کے ہاں اسے مأخذ قرارد یا جا سکتا ہے، وہ بھی ان کی سیاسی ضرورت تھی۔ وہ عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئے تھے۔ نباض کی حیثیت سے وہ جانتے تھے کہ اسلام کے معاملے میں پاکستان کے عوام بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چار نکاتی انتخابی نعرے میں اسلام سرفہرست تھا، یعنی:’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے ،سوشلزم ہماری معیشت ہے اورطاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘‘بھٹو صاحب کے یہ تصورات کئی مذہبی حلقوں کے لیے بالعمومقابل قبول نہیں تھے۔ لیکن ان کی زندگی کا دوسرا پہلو روشن اور دلآویز ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اپنے طرززندگی کے اعتبار سے مغرب زدہ فکر رکھتے ہوئے بھی وہ سیاسی اور تزویراتی اعتبار سے مغرب کے بڑے سخت دشمن تھے تو غلط نہ ہو گا۔
پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی وطن عزیز سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جولانگاہ بن گیا۔ پچاس کی دہائی اس سلسلے کی بڑی اہم دہائی ہے۔ اس دہائی میں پاکستانی فوج میں کمیونسٹ بغاوت کی کوشش ہوئی جس کا بنیادی مقصد قرارداد مقاصد کے اثرات زائل کرنے کے ساتھ ساتھ دستوری کوشش کو لپیٹ کر ایک لادینی سوویت نظام سیاسی پر ریاست کی داغ بیل ڈالنا تھا۔ اس کوشش میں پاکستان کے عوام کا میاب ہوئے اور بغاوت ناکام ہو گئی۔آٹھ سال کی محنت شاقہ کے بعد بالآخر دستور بنا تو فوجی انقلاب نے اس عمل میں رکاوٹ ڈالی، اور یوں اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک عالمی طاقتوں کے لیے ایک تختہ مشق بن گیا۔[3]
ب۔ ذوالفقار علی بھٹواور ان کا اسلامی سوشلزم: یہ کہنا تو خاصا دشوار ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کے نعرے میں خود کو پا بہ جولاں نہ کرتے تو نتائج مختلف ہوتے لیکن یہ کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس ایک نعرے کی بنیاد پر ان کے دین و ایمان پر وہ وہ حملے ہوئے کہ ملک سیاسی اعتبار سے کفر اور اسلام کا میدان کارزار بن گیا۔
سوشلزم ہو یا کمیونزم، ان دونوں کے ایک سے زیادہ ایڈیشن دنیا کے کئی ممالک میں ان دنوں رائج تھے۔ ان دونوں —اشتمالیت اور اشتراکیت— کے جتنے ایڈیشن دنیا میں موجود ہیں، انہیں محدب عدسے سے گزار کر ایک نقطہ ماسکہ پر لایا جائے تو ان کا ایک عنوان یہ بن سکتا ہے: ’’سرمایہ دارانہ نظام سے عداوت‘‘۔ اس ایک عنوان کے تحت اس سیاسی اور اقتصادی نظام کو دنیا کے متعدد ممالک نے اپنے اپنے طریقے سے اپنایا۔ سویڈن، ڈنمارک اور ناروے مغربی سرمایہ دار برادری میں ہوتے ہوئے بھی سوشلسٹ معیشت والے ممالک کہلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک سطح پر یہاں تک کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کی معیشت بھی سوشلسٹ معیشت ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں سوشلزم اور اسلام کا معرکہ نظریاتی رنگ اختیار کر گیا۔ جن قوتوں نے اس کو انگیخت دی، وہ اس مطالعے کا موضوع نہیں ہے ۔
ج۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اصل ملکی مسائل: کم و بیش یہی صورت حال بھٹو صاحب کو درپیش تھی۔ ان کے موضوعات مذہب، توسیع پسندی یا دین دشمنی نہیں تھے۔ وہ ملک کو مغربی ممالک کے شکنجے سے نکالنے پر کوشاں تھے۔ ان کی ایک تحریر کا اقتباس ان کی سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے:
On my return from the famous General Assembly Session of 1960 which was attended by Premier Khrushchev, Presidents Nasser and Soekarno, Mr. Macmillan, Pandit Nehru, Senor Fidel Castro, and many other eminent statesmen, I was convinced that the time had arrived for the Government of Pakistan to review and revise its foreign policy. I accordingly offered suggestions to my Government all of which were finally accepted. This was before I became Foreign Minister. The ground was thus prepared for my work, by changes introduced at my own insistence, when I took charge officially of the conduct of foreign policy as Foreign Minister.
۱۹۶۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس سے واپسی کے بعد جس میں وزیراعظم خروشیف، صدر ناصر، صدر سوئیکارنو، مسٹر میکلمن، پنڈٹ نہرو، سینور فیدیل کاسترو اور بہت سے دوسرے سربرآوردہ سیاست دان شامل ہوئے تھے، مجھے اس بات کا پورا یقین ہو گیا تھا کہ وقت آ پہنچا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی پر دوبارہ غور اور اس میں مناسب ترمیم کرے۔ چنانچہ میں نے اپنی تجاویز حکومت کے سامنے پیش کیں جو تمام کی تمام بالآخر منظور کر لی گئیں۔[4]
اس تحریر میں مذکور نام دیکھنے اور تحریر پرغور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ تیس سال سے کم عمر میں وزیرخارجہ بننے والا یہ شخص اپنے ملک کو امریکی اثرونفوذ سے باہر نکالنے کے لیے کوشاں ہے۔ بھٹو صاحب مغربی ملکوں کے طرزِعمل سے بخوبی واقف تھے۔ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ جس انداز کا برتاؤ یہ عالمی طاقتیں کرتی ہیں، اس کے متعلق آپ کی ایک تحریر ملاحظہ ہو:
Underdeveloped countries cannot, by material means, resist the pressures of Great and Global Powers, which can cause havoc by silent diplomacy. They have only to bring into operation a host of devices which wreck the economic and social equilibrium of dependent states and overthrow regimes. Great and Global Powers prefer to operate in silence behind the scenes, and a variety of reasons would be given why discussions on the differences should not be made public.
ترقی پذیر ممالک مادی ذرائع سے ان عظیم اور عالمی طاقتوں کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو خاموش سیاست گری کے ذریعے تباہی برپا کر سکتی ہیں۔ وہ تو محض گوناگوں تدابیر بروئے کار لا کر ہی متوسل ملکوں کے اقتصادی اور سماجی توازن کودرہم برہم اور ان کی حکومتوں کے تختے الٹ سکتی ہیں۔ عظیم اور عالمی طاقتیں پسِ پردہ رہ کر خاموشی سے عمل کرنا پسند کرتی ہیں۔[5]
یہ وہ اصل مسئلہ تھا جس کی انہوں نے نشاندہی کی اور یہی وہ مسئلہ تھا جس کی عقدہ کشی انہوں نے اپنے ذمہ لی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے جس طرز کی سیاست کو انہوں نے ملک میں فروغ دیا اور سیاسی مخالفین سے جو طرزعمل اختیار کیا، اس کے سبب انہوں نے سیاسی میدان میں گناہ بے لذت کے طور پر اپنے بہت سے دشمن بنا لیے۔ ایسے میں سوشلزم کی بحث کو ملکی سیاسی محاذ آرائی نے دو آتشہ کر دیا۔
د۔ ذوالفقار علی بھٹو اور دینی فکر:دینی سیاسی جماعتوں سے مسلسل پنجہ آزمائی کے باعث وہ اسلام پسند سیاست دانوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایک وقت میں عملاً وہ مقام آ گیا کہ ان کے لیے مکالمے کے راستے ہی بند ہو گئے۔
دستور سازی اور وقتی سیاست میں ایک اعتبار سے توچولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں الگ الگ قائم بالذات ہونے کے سبب اپنا اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہاں ہمیں مولانا ظفر احمد انصاری البتہ سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ دستور سازی کے ایام میں بھٹو صاحب سے ہونے والی ایک ملاقات میں وہ ان سے یہ منوا آئے تھے کہ سابقہ اور آئندہ بننے والے قوانین کی اسلامی حیثیت متعین کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا جائے۔ مولانا انصاری کا بیان ہے کہ بھٹو صاحب اس بات پر راضی ہو گئے تھے۔ تاہم یہ نکتہ دستور میں جگہ نہ پا سکا۔
ھ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اسلامی قوانین: بھٹو صاحب نے ۱۹۶۸ء میں ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی۔ جواب میں صحافتی طور طریقے استعمال کرتے ہوئے نادیدہ قوتیں بھٹو صاحب کی شخصیت کا دین بے زاری والا جو رنگ سامنے لائیں، حقیقت سے اس کا کچھ واسطہ نہیں تھا۔پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ایوب خان کے دور میں اسلامی قوانین وضع کرنے کے لیے ایک رکن اسمبلی نے ۱۹۶۳ء میں اسمبلی میں قرارداد پیش کی تو بھٹو صاحب نے ان الفاظ میں اس کی پُرزور تائید کی تھی:
. . . . . Sir, again, in the enunciation of Principles of Policy the Constitution clearly stipulates that the Muslims of Pakistan should be enabled individually and collectively to order their lives in accordance with fundamental principles and basic concepts of Islam and should be provided with facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life. According to these principles and concepts of teaching, the Holy Quran and Sunnah shall be the basis of our law. Islamic moral standards should be promoted and observed by the Muslims of Pakistan and that the proper organization of Zakat Waqf and mosque should be ensured.[6]
ترجمہ :۔۔۔ جناب ایک پھر عرض کروں کہ پالیسی اصولوں کی مطابقت میں دستور بالوضاحت یہ قرار دیتا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے تحت اپنی زندگی گزاریں اور انہیں وہ سہولتیں بہم پہنچائی جانا چاہئیں جن کے بموجب وہ تصورِ حیات کا فہم حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ان اصولوں اور تصورات کے مطابق قرآن اور سنت ہمارے قوانین کی بنیاد ہوں گے۔ پاکستان کے مسلمان اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دیں اور ان کی پاسداری کریں اور یہ کہ زکٰوۃ، وقف اور مساجد کو باقاعدہ ادارہ جاتی طور پر یقینی بنایا جانا چاہیے۔
یہ الفاظ ادا کرتے وقت بھٹو صاحب حزب اختلاف میں نہیں تھے کہ اسے حکومت کی مخالفت قرار دیا جاتا، نہ اس زمانے میں اسلامی تحریک اس عروج پر تھی جس قدر آج عالم اسلام میں نظر آتی ہے، نہ بھٹو صاحب پاکستانی عوامی رہن سہن کے نمائندہ تھے۔ مندرجہ بالا الفاظ میں سے ایک ایک لفظ تحریک پاکستان کے ایام کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اس وقت صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیرخارجہ تھے۔ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیرخارجہ نہیں بنے تھے اور نہ عوام کو جوابدہ تھے۔ پھر بھی انہوں نے عوامی احساسات کی بھرپور ترجمانی کی۔صدرایوب خاں کےبعد اپنے دور اقتدار میں اسلام کے متعلق انہوں نے جو کچھ بھی کہایا لکھا، اسے توسیاسی ضرورت کہا جا سکتا ہے لیکن اقتدار سے پہلے ۱۹۶۹ء میں لکھی گئی ان کی کتاب The Myth of Independence کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ یہ اقتباس ان کی کتاب کے جس باب سے لیا گیا ہے، اس کا عنوان ملاحظہ ہو ’’اُمڈتے بحران کا سامنا کیوں کر کیا جائے ‘‘:
A national crisis is a call to national greatness, and must be met with a spirit of dedication. Muslim s cannot be better inspired to face such a challenge than by heeding the words of the Holy Koran: Fighting in defence of Truth and Right is not to be undertaken lightheartedly, not to be evaded as a duty. Life and Death are in the hands of God. Not all can be chosen to fight for God. It requires constancy, firmness and faith. Given these, large armies can be routed by those who battle for God.
ایک قومی بحران قومی عظمت کا متقاضی ہوتا ہے، اس کا سامنا جذبہ ایثار کے ساتھ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے دل میں اس طرح کی آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے قرآن پاک کے الفاظ پر غور سے بہتر کوئی صورت نہیں:’’حق اور انصاف کے لیے جنگ سے سہل انگاری سے کام نہیں لینا چاہیے اور اس فریضے سے روگردانی نہیں کرنا چاہیے۔ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر کسی کو خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے منتخب نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں وفاداری، استقامت اور ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چیزیں میسر ہوں، تو بڑے بڑے لشکروں کو وہ لوگ الٹ دیتے ہیں جو خدا کے لیے جہاد کرتے ہیں۔‘‘ [7]
اسی کے تسلسل میں وہ مزید لکھتے ہیں:
It is for the leaders to hold high the banner of independence and march forward with confidence in a spirit of dedication. Our choice is whether to face the struggle or succumb to external pressures and become a tombstone of the cold war. It is written in the Holy Koran: And we shall give the joys of victory to those who are oppressed, and who struggle to uphold justice and freedom on the face of the earth; it is they whom we shall raise to be leaders, and it is they who shall be the heirs who shall build up and develop the equal well-being of Man.
یہ راہنماؤں کا کام ہے کہ وہ آزادی کے علم کو بلند رکھیں اور اعتماد اور ایثار کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ہمیں طے کر لینا ہے کہ ہم کشمکش کا سامنا کریں یا بیرونی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر سرد جنگ میں محض لوح مزار بن کر رہ جائیں۔ قران مجید میں لکھا ہے:’’اور ہم ان لوگوں کو فتح کی خوشی عطا کریں گے جو مظلوم ہیں اور جو روئے زمین پر انصاف اور آزادی کو قائم رکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم قیادت کے درجات پر سرفراز کریں گے اور وہی لوگ قیادت کے وارث ہوں گے جو انسانوں کی مساویانہ فلاح کی تعمیر اور ترقی کا کام کریں گے‘‘۔[8]
وہ سوشلزم، اسلام اور پاکستان کی مثلث یوں کھینچتے ہیں:
Islam and the principles of socialism are not mutually repugnant. Islam preaches equality and socialism is the modern technique of attaining it.[9]
اسلام اور سوشلزم کے اصول ایک باہم متضاد نہیں ہیں۔ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور سوشلزم مساوات کے حصول کا جدید طریقہ ہے۔[10]
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
The socialism applicable to Pakistan would be in conformity with its ideology and remain democratic in nature. There will be no foreign dictation. If there can be a Scandinavian form of socialism, there is no reason why there cannot be a Pakistani form of socialism suitable to our genius.[11]
پاکستان میں جو سوشلزم نافذ ہو سکتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے نظریہ حیات سے ہم آہنگ ہو اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے جمہوری ہو۔ کسی طرح کی بیرونی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر سوشلزم کی اسکنڈی نیوین قسم ہو سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ سوشلزم کی پاکستانی قسم نہ ہو جو ہمارے مزاج کے حسب حال ہو۔[12]
امریکی سامراج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ مسئلے کی نوعیت، کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
The hidden hand working through its agents has moved mercilessly in many underdeveloped nations of Asia, Africa and Latin America. Pakistan is not an exception. Foreign influence has been allowed to spread far and wide into Pakistan and, on a number of occasions, vital national interests have been compromised under foreign pressure. This must stop and it can only when the people take control. The entire population cannot be bribed or become a foreign agent. Thus, the Islamic ideology of this nation can be best preserved by the people of Pakistan.[13]
ایک پوشیدہ ہاتھ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی ترقی پذیر اقوام کی صفوں میں بے رحمی کے ساتھ محو حرکت ہے۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ بیرونی اثرات کو مہلت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر دور دور تک سرایت کر جائیں۔ متعدد موقعوں پر بیرونی دباؤ کے تحت بنیادی قومی مفادات پر سمجھوتہ بازی کی گئی۔ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب عوام کو اختیار حاصل ہو۔ پوری کی پوری آبادی کو رشوت نہیں دی جا سکتی اور نہ سب کے سب بیرونی ایجنٹ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح دیکھا جائے تو اس کے اسلامی نظریہ حیات کا بہترین تحفظ پاکستان کے عوام ہی کر سکتے ہیں۔
بھٹو صاحب کی عمومی شہرت ایک سیکولر سیاست دان کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ان کا طرز حکمرانی بھی اسی امر کا غماز رہا۔ لیکن زیرک سیاست دان جانتے ہیں کہ ایک مدبر کو بیک وقت کئی عوامی طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب ایک اعلیٰ پائے کے مدبر تھے اوران کے سامنے سیکولر اور اسلام پسند حلقوں کو ساتھ ملا کر چلنا تھا۔ اس عمل میں سیکولر فکر وقتی فوائد تو حاصل کرتی رہی، کوئی دیرپا دستوری فائدہ نہ لے سکی۔ اسلامی لابی یہ دونوں کام نہ کر سکی۔ اس کے باوجود ۱۹۷۳ء کے دستور میں جتنا اسلام ملتا ہے، وہ گزشتہ دونوں دساتیر سے زیادہ ہے۔[14]
(۲)دور فکر اسلامی : ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۹ء
بائیس سال کے اس دورانیے میں اسلام پسندوں اور لادین عناصر دونوں کی حکومتیں رہیں لیکن دستوری لحاظ سے اس عہد کو فکر اسلامی کا دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ دور جنرل محمدضیاء الحق کے عہد حکومت سے شروع ہوا۔ انہوں نے دستور میں متعدد ترامیم کے ذریعے اسلام کو دستور کا لازمی حصہ بنا ڈالا۔ انہوں نے صدر مملکت کے اختیارات میں بھی بہت اضافہ کیا جس سے جمہوری حکومتیں فوجی اور سول افسر شاہی کے سامنے مرغ دست آموز بن کر رہ گئیں۔ ان کے بعد غلام اسحاق خان صدر مملکت بنے۔ ان کی عمومی شہرت بھی اسلام پسند شخص کی تھی۔ انہوں نے جنرل محمد ضیاء الحق کی دستوری ترامیم کو بھرپور طریقے سے بچائے رکھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی دستوری اداروں کو کام کرنے کا خوب موقع ملا۔
اسی عہد میں وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ قوانین پر متعدد فیصلے دئیے جن کے سبب ملک کا قانونی ڈھانچہ قابل ذکر حد تک اسلامی رنگ میں ڈھل گیا۔ اسی عہد میں اپنی تشکیل نو کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے خوب جم کر کام کیاجس کے ثمرات سینکڑوں رپورٹوں اور سفارشات کی شکل میں موجود ہیں۔ اسلام کے رخ پر چلنے والی کوئی حکومت زیادہ وقت صرف کیے بغیر بہت سی قانون سازی کر سکتی ہے۔اسی دور میں سیکولر بنیادوں پر قائم پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت دو مرتبہ قائم ہوئی۔ لیکن اپنے سیاسی نقطہ نظر کے برعکس قصاص اور دیت کا آرڈیننس پہلی مرتبہ اسی پارٹی کے دور حکومت میں ۱۹۹۰ء میں جاری ہوا۔لیکن اس طویل دورانیے کو مختصر کیا جائے تو اس کا جوبَن ۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۵ء تک کے عہد میں دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ عہد ہے جس میں مجموعی طور پر دستور میں ۲۴ ترامیم ہوئیں۔
الف۔ راست فکر افراد کا مخمصہ: اس عہد پر راست فکر افراد کی نسبت سے تبصرہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ’’انہوں نے دستوری میدان میں ٹھوس انداز میں اور جم کر کبھی کام کیاہی نہیں تھا‘‘۔ بھٹو صاحب کے دور میں اگر سیاسی سطح پر بہت سی مشکلات درپیش تھیں تو علمی سطح کا دروازہ کسی نے بند نہیں کیا تھا۔ یہ کام شروع کر کے جاری رکھا جاتا تو جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں وہ مشکلات پیش نہ آتیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ملک میں دستوری معرکہ آرائی اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ ابتدائی دس سالوں کے لیے تو یہ جواز موجود ہے کہ اس زمانے میں ادارے اور وسائل میں وہ تنوع نہیں تھا جو بعد کے ادوار میں سیاسی جماعتوں کو حاصل رہا۔
لیکن ۱۹۵۱ء اور پھر ۱۹۵۳ء میں کراچی میں علماء کی منعقدہ کانفرنسوں کی سفارشات کی روشنی میں راست فکر افراد نے کوئی ورکنگ گروپ قائم نہ کیے۔ یہ کام کر لیا جاتا تو تشہیر کے مراحل سے گزار کر اسے عوامی سطح پر خوب متعارف کرا لیا جاتا اور یوں عوام کی ٹھوس تربیت ہو چکی ہوتی۔ اس طرح وقتی طور پر نعرہ زن سیاست دان لوگوں کو گمراہ کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوتے۔ یہی وہ عہد تھا جس میں خالی الذہن اہل دانش کی فکر دستوری مباحث سے سیراب کی جا سکتی تھی جس سے وہ کندن بن کر ان کے دست و بازو بنتے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ ۱۹۷۳ء کا دستور وضع کرتے وقت دستوری مواد بالکل تیار ملتا۔[15]
ذوالفقار علی بھٹو یقینا عوام کے بے پناہ سیلابی ریلے سے برسراقتدار آئے تھے۔ لیکن دو صوبوں میں ان کی عددی طاقت کچھ قابل ذکر نہیں تھی۔ عملاً وہ پنجاب ا ور سندھ کی نمائندگی کرتے تھے۔ یہاں کی آبادی سرحد اور بلوچستان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے ان کی نشستیں زیادہ تھیں۔ لیکن صوبوں کی آبادی کم ہو یا زیادہ وہ سیاسی اکائی یقینا ہوا ہیں۔ سرحد اور بلوچستان میں دینی سوچ خاصی اکثریت تھی۔ اگربیس سالہ گزشتہ عہد میں اس عددی اکثریت کی مدد سے ہوم ورک کر کے کچھ تیار کر لیا جاتا تو ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کا عنصر نسبتاً زیادہ ہوتا۔
۱۹۷۷ء کے فوجی انقلاب کے بعد مذہبی حلقوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے پاس اسلام کی نسبت سے جس انداز کی دستوری ترمیم کوئی لے کر گیا، انہوں نے اسے جاری کر دیا۔
ب۔ جنرل ضیاء الحق کا دورانیہ اور دستوری ترامیم کی نوعیت: جنرل محمد ضیاء الحق کے اس طویل دور حکومت پر کئی زاویوں سے نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق انہیں نہ صرف پاکستانی دستور کے تمام اہم آرٹیکل کے متن پر بلکہ ہندوستانی دستور پر بھی خوب گرفت حاصل تھی۔[16] لیکن بنیادی طور پر وہ فوجی تھے، ماہر قانون نہیں تھے۔ وہ اختیارات سے لیس تو تھے لیکن سیاسی مدبر نہیں تھے۔ دستوری نزاکتیں سمجھنے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہ اس عمل کے قریب سے بھی نہیں گزرے تھے۔
ان تمام توجہ طلب امور کے دوسری طرف اسلام کے لیے وہ ہر کام کر گزرنے کو تیار تھے۔ یہ کام ان سے کون کراتا؟ ظاہر بات ہےراست فکر سیاست دان ہی یہ کام کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں اس طرف توجہ کرنے کی بجائے روزمرہ سیاسی امور کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ اگر وسائل کی کمی کو رکاوٹ قرار دیا جائے کہ اس کے باعث غالباً یہ کام نہیں ہو سکا تو یہ بات صحیح نہیں۔ ملکی سطح کے کسی ایک سیاست دان کے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں کا صرف ایک ماہ کا ریکارڈ دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس کام پر جو وسائل صرف ہوتے ہیں، ان کاکچھ حصہ اس اہم کام کے لیے بھی مختص کیا جا سکتا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں یہ کام کبھی نہیں آ سکا۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عہد میں جو ۲۴ دستوری ترامیم ہوئیں۔ ان میں سے آدھی، یعنی ۱۲ ترامیم کا خالصتاً تعلق وفاقی شرعی عدالت اور اس کے متعلقات (بشمول چاروں ہائی کورٹوں میں شریعت بنچ) سے ہے۔
پہلے ہائی کورٹوں میں شریعت بنچ بنائے گئے۔ یہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ پھر وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی۔ اور حد تو یہ ہے کہ آنے والے نصف عشرے میں یہ عدالت تسلسل کے ساتھ قائم ہوتی رہی۔ اس کے ابتدائی قیام سے لے کر اس کی موجودہ شکل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اس پر ہوم ورک کیا جاتا تو اس ایک کام کے لیے پوری ایک درجن دستوری ترامیم درکار نہ ہوتیں۔
یوں لگتا ہے کہ ذمہ داری سرپر پڑنے سے ان اہل دانش کی سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کس سمت کا رخ کیا جائے۔ مختلف النوع سمتوں میں بکھرے افرادکو کسی نقطہ اتصال پر لانے کے لیے روشنی کا کوئی قدآور منارہ درکار تھا جو اس عہد میں تو کیا آج بھی موجود نہیں ہے۔ کوئی دانش گاہ (Think tank) نہ ہونے کے باعث یہ لوگ اپنی اپنی سوچ کے اسیر، اپنے اپنے کرّے میں مقید اور اپنی ہی خودی کو بلند کرتے نظر آتے ہیں۔[17]
چنانچہ اگر دعویٰ کیا جائے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ قانون کی دنیا میں اعلیٰ پائے کے وہ ماہرین ساتھ ہی ساتھ تیار ہو چکے ہوتے جو دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والی اعلیٰ پائے کی کسی جوڈیشیل کانفرنس میں از خود مدعو کیے جاتے۔ وہ اتنے مدبر ہوتے کہ ان کی بات میں وہاں وزن محسوس ہوتا، ان کی تربیت ہوتی رہتی اور یوں وہ اپنی فکر کو پختہ کرتے رہتے۔ یہی لوگ آئندہ چل کر سیاسی قیادت کے لیے ٹیکنیشن کا کام کرتے۔یہ قانونی ٹیکنیشن نہ ہونے کے باعث جنرل محمد ضیاء الحق کے بلاشرکت غیرے آٹھ سالہ دور حکومت میں دستوری ترامیم کا کام مطلقاً الل ٹپ طریقے پر ہوتا رہا۔
(۳)لادینیت کے لیے کوشاں عناصر کا دور : ۱۹۹۹ء تا ایں دم
ملکی تاریخ میں کوئی دور نہیں گزرا جس میں کوئی سیاسی جماعت یا گروہ بالفاظ صراحت عوام سے یہ کہہ رہا ہو کہ ملکی امور اسلام سے لاتعلق ہو کر چلائے جائیں گے۔ یہ کہنے والے ہر دور میں موجود رہے کہ یہ ملک تمام مذاہب کے لیے ہے لہٰذا یہاں کے تمام قوانین بلاامتیاز مذہب ہونا چاہئیں۔ یہ کہنے والے بھی موجود ہیں کہ یہ ملک اسلام کے لیے نہیں مسلمانوں کے لیے بنا تھا۔ یہ دعویٰ کرنے والے بھی موجود ہیں، فلاں [صراحتاً غیراسلامی] قانون میں کوئی غیراسلامی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا ہر کسی کے لیے دشوار ہے کہ اسلام سے لاتعلق ہو کر ملکی امور نمٹائے جائیں۔
۱۹۹۹ء میں قائم فوجی حکومت کے سربراہ پرویزمشرف کا مخمصہ بھی یہی رہا۔ ان کے دور میں ہونے والی دستوری ترمیم کے باعث دستور کی اسلامی حیثیت کو ضعف (Dent)پہنچا ۔پرویز مشرف کی عمومی شہرت دینی فکر رکھنے والے شخص کی سی نہیں تھی۔ ان کے دور میں پاکستانی معاشرت کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام ہوئے۔ اختلاط مرد و زن کو عام رواج دیناسرفہرست ہے۔
لیکن یہ سارے کام سطحی ہیں۔ دستور سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ۱۹۹۹ء کی اس فوجی حکومت کو ترمیم کا جو اختیار دیا ، وہ مشروط تھا ۔ دیگر امور کے ساتھ اس فیصلے میں یہ پابندی بھی تھی کہ دستور کی اسلامی دفعات نہیں چھیڑی جائیں گی۔
پرویز مشرف حکومت اپنی تمام لادینی فکر کے باوجود اس میں کوئی بڑا رخنہ (Dent) ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
بحیثیت مجموعی دستور کی حفاظت اگر اس کا آرٹیکل ۶ کرتا ہے تو اس کی اسلامی دفعات سپریم کورٹ کے متذکرہ بالا فیصلے کے بعد محفوظ و مامون ہو چکی ہیں۔ فکری، اخلاقی، قانونی اور دلیل کے میدان میں یہ مسئلہ اب مطلقاً طے ہو چکا ہے کہ دستور ۱۹۷۳ء وہ مستقل دستاویز ہے جس سے ریاست کا ہر ادارہ راہنمائی لینے کا پابند ہے۔ سیاسی سطح پر یہ بات روزاوّل ہی سے تسلیم شدہ تھی کہ یہ ملک اسلام اور اسلامی قدروں کی ترویج و اشاعت کے لیے معرض وجود میں لایا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اب دستوری اور قانونی لحاظ سے بھی یہ طے ہو چکا ہے کہ دستور کی موجودہ شکل (جو پارلیمانی جمہوریت اور اسلام پر مشتمل ہے ) کی اساس کو نہیں چھیڑا جا سکتا۔
ان دونوں اہم باتوں کے باعث اب لادین عناصر کی حکمت عملی میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ گزشتہ چندسالوں سےبعض مخصوص عناصر کی طرف سے قومی سیاست دانوں کے نام اس طرح کی تحریریں سامنے آ رہی ہیں جن میں نیا دستور وضع کرنے کی تجاویز دی جاتی ہیں۔ فوجی دور اقتدار طویل ہونے کے ردعمل میں چھوٹی علاقائی قوم پرست جماعتیں تقویت حاصل کر چکی ہیں۔ انتخابی پیمانے سے چھٹ کر سامنے آنے والی ان کی کارکردگی ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ اس پر کسی تشویش کا اظہار کیا جائے۔ لیکن پڑوس کی صورت حال، صوبائی خودمختاری کے مسئلے اور ملکی امور میں بین الاقوامی مداخلت کے باعث بظاہر یہ لوگ طاقت پکڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ منظر خطرناک راستے کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ بظاہر تحریر کے اس حصے کا واسطہ اسلامی دفعات سے معلوم نہیں ہوتا۔ یہ بات ایک حد تک تو درست ہےلیکن دستور ۱۹۷۳ء وہ قیمتی دستاویز ہے جس نے نہ صرف ملک کی یکجہتی و سلامتی کو برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ یہ اسلامی طرز زندگی کا ضامن بھی ہے۔ پس دستور کو ضعف پہنچا تو یہ اسلامی دفعات کو ضعف پہنچنے ہی کا دوسرا نام ہے۔
ج۔ لا دین عناصر کی فکر کا مختصر جائزہ: پاکستان میں لادین عناصر کی متعدد شکلیں ہیں۔جن کے تفصیلی مطالعے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ یہ جو بھی ہوں، ان کا مطمح نظر ملک کو آزادخیالی کی روش پر چلانا ہوتا ہے۔ لادینیت کی ہر شکل کے لیے اسلام ایک واضح للکار ہے، اس ایک نقطے پر تمام لادین عناصر متفق ہیں کہ اسلام ان کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ سب کو پتا ہے کہ زندگی کے تمام زاویہ ہائے نگاہ پر اسلام کا اپنا ایک واضح نقطۂ نظر ہے۔ دستور اور قانون بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ معاشرت اور اخلاقی قدریں بھی اسی حلقہ زنجیر کی صناعی کرتی ہیں۔ پس دستور کی اسلامی شناخت ان لوگوں کے راستے کا بنیادی پتھر ہے جسے ہٹائے بغیر ملک کو آزاد روی پر چلانا آسان کام نہیں ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ملک میں دستور سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کے بنے ہوئے کسی قانون کے متعلق کسی کا خیال ہو کہ یہ دستور سے متصادم ہے تو وہ عدالتی چارہ جوئی کر سکتا ہے۔ یہ کیفیت کم و بیش ہر جمہوری ملک میں موجود ہے۔
جن ملکوں میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور ہے، وہاں بھی عدالتیں پارلیمنٹ کے قوانین کو کالعدم کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ میں کانگریس کے بنائے کوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ قوانین کو وہاں کی عدالت عظمیٰ پچھلے دو سو تیس سالوں میں کالعدم قرار دے چکی ہے۔ ہندوستان میں تو عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ کی وضع کردہ دستوری ترمیم کو اس بنیاد پر خلاف دستور قرار دے دیا تھا کہ وہ مجموعی دستوری ڈھانچے کے خلاف ہے۔ لیکن ان ممالک میں کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ پارلیمنٹ کے اوپر عدالتوں کو کیوں بٹھا دیا گیا ہے۔
جن اصحاب کے خیال میں پارلیمنٹ کوئی سپریم ادارہ ہے، وہ فی الحقیقت فوجی دور حکومت کی طوالت سے پریشان ہو کر پارلیمنٹ کی بالادستی کے سیاسی نعرے کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں بالادستی دستور کو ہوا کرتی ہے۔ پاکستانی دستور میں بالوضاحت لکھا ہوا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ اس دستوری شق کے ہوتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت دینی فکر کے لیے باعث سہولت تو یقینا ہے لیکن اس کے بغیر بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا اگرچہ مقصد کے اس حصول میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے کسی قانون کے خلاف اسلام ہونے پر اگر کوئی شخص کبھی سپریم کورٹ میں چلا گیا اور وہاں یہ تسلیم کر لیا گیا کہ واقعتا وہ قانون خلاف اسلام ہے تو اس کے بعد یہ لوگ کیا یہ مطالبہ کر سکیں گے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اوپر کیوں ہے ،لہٰذا اسے بھی ختم کیا جائے؟
د۔ پاکستانی سیاست کا مخمصہ: پاکستانی سیاست ہمیشہ مخمصے کا شکار رہی کہ اس کے عناصر بالعموم تین کروں میں منقسم رہے۔ ایک نقطہ نظر یہ رہا کہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا، اس لیے اس کے ہر ادارے میں اسلام ہر وقت اور ہر حال میں موجود رہنا چاہیے۔ دوسرا نقطۂ نظر دوسری انتہا (Swing) پر رہا کہ مذہب کا تعلق انسان کی نجی زندگی سے تو ہو سکتا ہے اور ریاستی امور اس سے لاتعلق ہوا کرتے ہیں۔ ایک تیسرا نقطہ نظر جسے بدقسمتی سے سیاسی فکر کہنے کی بجائے ابن الوقتی کہنا زیادہ بہتر ہے،ہمیشہ ان دو کرّوں کے درمیان معلق رہا۔ ایوان اقتدار میں یہ تیسرا نقطۂ نظر رہا۔مسجد سے تعلق کی بنا پر علماء کرام کا عوام پر ہمیشہ گہرا اثر رہا۔ یہ تعلق بڑھتے بڑھتے سیاسی زندگی میں آگیا جو فطری امر ہے۔ ملک میں غالب اکثریت بحیثیت ایک کل ہمیشہ سے اسلام سے لگاؤ رکھتی رہی جس کے سبب کوئی سیاسی جماعت اسلام، اسلامی قانون، اسلامی اقدار یا اسلامی اخلاقیات سے روگردانی کی کبھی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان دو اسباب کے باعث اہل سیاست کے دو انداز سامنے آئے۔
ھ۔ دو طرح کے طریق سیاست: قیام پاکستان کے بعد وطنِ عزیز میں اسلام کے متعلق ایک سے زیادہ نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ علمائے کرام نے سیاست میں قدم رکھا تو ان کے پیش نظر، نظری اعتبار سے اسلام کا دفاع رہا۔ دوسری طرف عملی میدان میں وہ سیاسی جماعتیں دکھائی دیتی ہیں جن کی عمومی شناخت دینی جماعت کی سی نہیں رہی۔
دونوں قسم کی ان جماعتوں کے پاس نہ کوئی عملی پروگرام دکھائی دیتا ہے اور نہ مسائل حل کرنے کے لیے ان کے پاس ماہرین کی کوئی جماعت کبھی دیکھنے کو ملی۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں نظری میدان میں ہیولوں کے تعاقب میں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ انتخابی مہم شروع ہونے پر انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں کا منشور ضرور جاری ہوتا ہے لیکن ان کے پاس متعدد ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ ایک آدھ دفعہ کو چھوڑ کر کسی سیاسی جماعت نے کسی ایک مسئلے کو لے کر کبھی کوئی ورکنگ گروپ تک قائم نہیں کیا جو انتخابات سے پہلے مسائل کا حجم، ان کی نشاندہی اور عقدہ کشائی میں ان کی ترجیحات اور بالآخر طریق کار پر اپنا نقطہ نظر سامنے لاتا۔
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہر دو جانب سے عوام کی توجہ مسائل سے ہٹا کر فکر و فلسفے پر استوار رہی۔ اسلام جیسے متفق علیہ مسئلے کو متنازعہ تو نہ بنایا جا سکا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں دو واضح تصورات سامنے آ تے گئے۔ ایک طرح کے سیاست دان دینی سیاست کے علمبردار کہلائے اور دوسری نوع کے لوگ محض سیاست کے پرچارک ! حالانکہ دستور پر ذرا غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب ملک میں کوئی قانون قرآن وسنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا تو کوئی سیاسی جماعت کسی ایسے مدار پر کھڑی نہیں کی جا سکتی جو قانون سازی کو اس دستوری راستے کے برعکس کسی دوسرے رخ پر لے جانے کے لیے قائم کی گئی ہو۔
و۔ نقطہ اتصال اور کرنے کے اصل کام[18]: سیاسی جماعتوں کا مقصد وجود کیا ہے؟ جب یہ بات طے ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا تو خود بخود لازم آتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسی سیاسی جماعت اپنی رجسٹریشن کے لیے نہ آئے جس کے انتخابی منشور میں اس کے برعکس قانون سازی کی گنجائش ہو۔ جب یہ بات طے ہے کہ اسلام کوئی متنازعہ فیہ مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ طرز سیاست اور سیاسی امور میں ترجیحات کا ہے تو دینی اور غیردینی جماعتوں کی تفریق کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اس اعتبار سے علمائے کرام اور دینی فکر کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔قرآن و سنت کے اصول سیاست سامنے رکھے جائیں تو اس پر مفکرین اسلام نے بہت قیمتی لٹریچر تخلیق کیا ہے۔ لیکن ان اصول سیاست میں سے بیشتر کا تعلق ریاستی امور کی انجام دہی سے ہے۔ مثلاً اللہ کے نازل کردہ فرمان کے مطابق فیصلہ کرنے کا دارومدار بڑی حد تک ریاستی ادارے کے وجود سے مشروط ہے(مائدہ ۔۴۴)۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے روشنی لے کر حق کے مطابق فیصلے کرنے کاانحصار بھی بڑی حد تک اقتدار سے متعلق ہے(نساء۔ ۱۰۵)۔ نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ کی ترویج خود قرآنی الفاظ کے مطابق متمکن فی الارض پر منحصر ہے(حج۔۴۱)۔ گویا دینی امور کا یہ حصہ صاحبان اقتدار اور بعض دوسرے لوگوں سے متعلق ہے لیکن بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کا فریضہ اللہ کے الفاظ میں یوں ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمُّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (القرآن۳: ۱۱۰)
ترجمہ : تم لوگ وہ بہترین جماعت ہو جسے نوع انسانی کے لیے چن لیا گیا ہے۔ تم لوگ نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
آیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ مسلمان امت کا بحیثیت مجموعی ایک فریضہ ہے۔ آیت کا اجمال ظاہر کرتا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان مرد و زن کے ذمے ہے۔ لیکن گفتگو کی ابتدا میں ایک اور آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس مجمل کی تفصیل گزر چکی ہے۔ فرمان الہٰی ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (القرآن ۳ : ۱۰۴)
ترجمہ :اور تم (مسلمانوں) میں ایک جماعت ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکرات سے روکے۔
دونوں آیات مل کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ہر مسلمان مرد و زن کے لیے (اصول فقہ کی زبان میں) فرض قرار دے رہی ہیں۔ اسے فرض عین کے زمرے سے نکال کر فرض کفایہ میں لانے کے لیے کسی جماعت کا وجود لازم آتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ من جملہ دیگر کاموں کے مسلمانوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے کوئی جماعت تشکیل دیں۔ اب اگر پہلے سے کوئی جماعت موجود ہے تو اس کے کرنے کے اصل کام یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہیں۔
امربالمعروف و نہی عن المنکر کی جہتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ اس پر بجائے خود الگ سے ایک مقالہ احاطہ تحریر میں لانے کی ضرورت موجود ہے۔ یہاں یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اسلامی امور کےماہرین کے کرنے کا اصل کام اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت اور لوگوں کی کردار سازی ہے۔ علماسیاسی امور سے واقفیت حاصل کریں جس طرح علم الکلام، رجال، تفسیر، حدیث وغیرہ باقاعدہ علوم ہیں، فنِ سیاست بھی اسی نوع کا علم ہے جس کی مقتضیات پوری کرنے پر اس فن کی باریکیوں کا علم ہو سکتاہے۔
دینی فکر کواس پر غور کرنا چاہیے کہ ۱۹۴۹ء کی محض ایک قراردادِمقاصد کو لے کر ۱۹۷۲ء میں عدالت عظمیٰ کا ایک جج اسے پاکستانی قانون کا اساسی مأخذ قرار دیتا ہے ۔یہ قرارداد نہ تو دستور کا حصہ تھی اور نہ کوئی دستور۔ اسی قرارداد کو دستور کا حصہ بنا دینے پر ایک دوسرے جج کو الجھی ہوئی گرہ کا سرا ہی نہیں ملتا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عقدہ کشا ذہنوں کا اسلامی علوم پر کلی اعتقاد کا عدم وجود اور ژولیدہ فکری! یہ ژولیدہ فکری دور کرنا دینی قیادت کے ذمے ہے۔[19]
[1] دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ کے نفاذ کو پچاسواں سال جاری ہے۔ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں جاری مختلف سرگرمیوں کے حصے کے طور پر بعض تحریریں پیش کی جارہی ہیں۔
[2] شہزاد اقبال شام پی۔ایچ۔ڈی شریعہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ جن میں شامل ہیں۔ زیرِ نظر تحریر ان کی کتاب "آئینِ پاکستان ۱۹۷۳ اور اسلام” مطبوعہ ۲۰۲۲ کے آخری باب سے ماخوذ ہے۔ مختلف مباحث کی تفصیل کے لئے مذکورہ کتاب آئی پی ایس پریس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر شام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ساتھ بطورسینیئر ریسرچ فیلو وابستہ ہیں۔
[3] بعض تجزیہ نگار اسے ملک کی دستوریہ، سیاسی اداروں، حکومتوں اور سیاست دانوں کی کوتاہی قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے دستور بنانے میں اتنی طویل مدت کیوں ضائع کی۔ کسی حد تک تو یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسی نوزائیدہ مملکت جس نے اپنی تخلیق کے ساتھ ہی تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کے مسائل ایک دمڑی کی غیرملکی امداد کے بغیر نمٹائے ہوں، وہاں اگر یہ مدت طول پکڑ گئی تو کچھ زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
[4] بھٹو، ذوالفقار علی: آزادی موہوم، مترجم کرم حیدری، نیشنل بک فاؤنڈیشن، کراچی ، ۱۹۷۷ء ص ب
[5] بھٹو، ایضاً، ص ۲۰۔۲۱۹
[6] ملاحظہ ہو:National Assembly of Pakistan Debates, Volume-I, 1962, Government of Pakistan Press, Rawalpindi p.963.
[7] بھٹو، ذوالفقار علی، ایضاً، ص ۲۱۹
[8] بھٹو، ایضاً،آزادی موہوم، ایضاً، ص ۲۲۱
[9] Bhtto, Zulfiqar Ali, Political Situation in Pakistan, April 1968, https://bhutto.org/index.php/speeches/speeches-from-1966-1969/political-situation-in-pakistan-a-pamphlet-april-1968/
[10] بھٹو، ذوالفقار علی: پاکستان کی سیاسی صورت حال ،مترجم محمد حنیف رامے، پاکستان پیپلز پارٹی، ۱۹۶۸ء ص ۱۸
[11] Bhtto, Political Situation in Pakistan
[12] ایضاً، ص ۱۸
[13] Bhtto, Political Situation in Pakistan
[14] یہ تقابل راقم کے ایم فل کے مقالے میں کیا گیا ہے۔
[15] راقم کسی سیاسی پیش گوئی کی اہلیت تو نہیں رکھتا لیکن اس مطالعے کے نتیجے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مشق کے باعث ملک کے دونوں حصوں میں وہ بُعد بھی نہ پیدا ہوتا جو فوجی حکومتوں کی بے بصیرتی کے باعث پیدا ہوا۔
[16] یہ بات لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس (ریٹائرڈ) امجد علی نے راقم کو ایک طویل نجی ملاقات میں بتائی۔ امجد علی صاحب سیکرٹری وزارت قانون کی حیثیت سے جنرل محمد ضیاء الحق کے بہت قریب رہے۔
[17] نظام حکومت پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ اس کا بین ثبوت ہے جس کا ذکرہگزشتہ ابواب میں کیا جا چکا ہے۔
[18] مقصود یہ نہیں ہے کہ دینی فکر بس یہی کام کیا کرے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اس کام کو دیگر کاموں پر ترجیح دے۔
[19] دینی فکر دیگر کاموں کے ساتھ سیرت و کردار کی تیاری اپنے ذمہ لے لے تو مسجد اس کے لیے ایک عمدہ جگہ ہے جہاں ہر مسلمان ہفتے میں کم از کم ایک دفعہ ضرورجاتا ہے۔
جواب دیں