‘رضوانہ کیس کا جائزہ – پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور چائلڈ لیبر کے چہرے’
رضوانہ کیس سے متعلق عوامی دلچسپی سے بچوں سے زیادتی کے خلاف آگہی، رائے سازی اور اقدامات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی: آئی پی ایس فورم
کم سِن بچی رضوانہ کے ساتھ گھریلو ملازمت کے دوران بدسلوکی کا واقعہ تمام بچوں کے حقوق سے متعلق اجتماعی ذمہ داری کی یاد دہانی کرواتا ہے تا کہ انہیں پھلنے پھولنے کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جاسکے۔ جیسے جیسےیہ مقدمہ آگے بڑھتا جائے گا، امید ہے کہ نہ صرف انصاف ملے گا بلکہ یہ کیس پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور استحصال سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آگہی، پیروی اور کارروائی کے حوالے سے اہم کردار بھی ادا کرے گا ۔
یہ بات 26 اپریل 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اور سماجی بہتری کے لیے قائم سماجی تنظیم اسپائر (سوشل ایکشن فار پروگریشن انوویشن، ریسرچ اینڈ ایجوکیشن) کے زیر اہتمام ‘رضوانہ کیس کا جائزہ – پاکستان میں بچوں کے حقوق اور بچوں سے مشقت کی شکلیں’ کے عنوان سے منعقدہ تقریب کے دوران کہی گئی۔ اس تقریب کا مقصد اس موضوع پر بیداری پیدا کرنا، بحث کو فروغ دینا، اور پاکستانی معاشرے میں بچوں کے حقوق اجاگر کرنا تھا۔
معروف وکیل اور آبادی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے سے وابستہ ماہر شرافت علی چوہدری نے اس آن لائن نشست کے شرکا سے خطاب کیا، جبکہ ماہرین تعلیم، کارکنِ، پالیسی ساز، قانونی پیشہ ور افراد اور متعلقہ شہریوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا۔
شرافت علی چوہدری ایڈووکیٹ نے جولائی 2023 میں سامنے آنے والے رضوانہ کیس میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے کی کارروائی کے بارے میں آکاہ کیا۔ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی کم سِن لڑکی کو اسلام آبادکی ضلعی عدالت کے جج عاصم حفیظ کی رہائش گاہ پر بہیمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جیسے ہی مقدمے سے پہلے کی کارروائی مکمل ہوئی، ملزمہ یعنی جج کی اہلیہ، پر 16 فروری 2024 کو فرد جرم عائد کر دی گئی۔ اگرچہ ملزم ضمانت پر ہے، لیکن فردِ جرم عائد ہو جانا متاثرہ فرد کے لیے انصاف کے حصول میں ایک اہم قدم ہے۔ اگلے مرحلے میں، استغاثہ کے گواہ/شواہد ٹرائل جج کے سامنے پیش کیے جائیں گے کیونکہ کیس اب 15 مئی 2024 کے لیے مقرر ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مقدمے کی سماعت مکمل ہونے میں مزیدایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
یہ کیس، جس نے خاصی توجہ حاصل کی ہے، پاکستانی معاشرے میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور چائلڈ لیبر کے وسیع مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔
مقرر نے بچوں کے حقوق اور بہبود کےلیے ایک مضبوط قانونی ڈھانچے اور بچوں کے تحفظ کے قوانین کے موثر نفاذ کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی۔ تمام صوبوں نے بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنائے ہیں اور ان قوانین کے تحت ماڈل کورٹس قائم کی جانی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے تحفظ اطفال کے نظام کو مضبوط قرار دیا کیونکہ اس نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کی تھی۔ تاہم، مناسب آگاہی، متعلقہ اداروں کی استعداد کار بڑھانے اور تربیت کے ساتھ ان قوانین کو صحیح معنوں میں نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ایک قانون دان اور وفاقی دار الحکومت میں بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایڈوائزری بورڈ کے سابق رُکن کے طور پر اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر انہوں نے بچوں کو اپنے حقوق تک رسائی میں درپیش چیلنجز اور ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے میں اسٹیک ہولڈرز کے کردار کے بارے میں قیمتی آراء دیں۔
آئی پی ایس سے وابستہ وکیل اور سماجی کارکن امینہ سہیل نے اس اہم مسئلے کو جامع انداز میں سمجھنے اور حل کرنے کے لیے آئی پی ایس جیسی تحقیقی تنظیموں کے ساتھ سماجی تنظیموں کے اشتراک کی تجویز پیش کی۔ بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور بچوں کی مشقت کی تلخ حقیقتوں کو حل کرنے اور تمام بچوں کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ مساوی معاشرے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس طرح کی باہمی کوششیں ضروری ہیں۔
تقریب کا اختتام بچوں کے تحفظ اور اس مقصد کے لیے درکار اقدامات سے متعلق مستقبل کی کوششوں کے لیے اہم نکات اور تجاویز پیش کرنے کے ساتھ ہوا۔
جواب دیں