‘روایت ، جدیدیت اور مسلم نظریہ ء علم’
جدیدیت کو اجتہاد کے ذریعے جانچنا چاہیے: اہلِ دانش
ایپسٹیمولوجی [نظریہء علم] وہ بنیادی اصول اور بنیادیں پیش کرتی ہے جن پرعمل کرتے ہوئے ایک خاص عالمی نقطہء نظر، اپنے ذرائع اور مقاصد تک پہنچتا ہے۔ اس عالمی نظریہ کی بنا پر متعین کی گئی تہذیب ، سائنسی روایت ، ادب، اور معاشرتی ڈھانچے علم کے تصور میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
مغربی عالمی نظریہ کی علمیات مغربی اقوام کے مخصوص تاریخی تجربات پر مبنی ہیں جو مسلم معاشروں کے ساتھ موافقت نہیں رکھتی ۔ علمی سامراجیت کے ذریعہ عائد مغربی علمیات اور اسلامی عالمی نظریہ کےدرمیان فرق کے باوجود مسلم معاشرے اپنی حقیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر تعلیمی کوششوں کے ذریعہ اپنی علمیات کو فروغ دینے اور اجتہاد کے ذریعہ روایت کو جدیدیت کے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔
یہ تبصرہ دانشوروں نے یکم اگست ۲۰۲۳ کو آئی پی ایس میں منعقدہ’ٹریڈیشن، موڈرنیٹی، اینڈ دی مسلم ایپسٹیمولوجی ‘ کے سیمینار کے دوران کیا۔مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر علی عباسی ، صدر ، المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ، قم، ایران ، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد ، شیخ الجامعہ ، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر مُستَفِیض احمد علوی، سربراہ، شعبہءاسلامی فکر و ثقافت، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، اور پروفیسر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی ، ڈین ، فیکلٹی برائے عربی اور علوم اسلامی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شامل تھے۔
پروفیسر علی عباسی نے کہا کہ مغرب کی عقلیت اور تعقل کی مخصوص تفہیم نے روایتی اصولوں اور عقائد کو کمزور کیا ہے۔یورو سینٹرک علمیات کی مسلسل وسعت اور نوآبادیاتی ذرائع سے اس کے جارحانہ نفاذ کے باوجودمسلمان معاشروں کے نظریہ حیات، عقائد، اور علمی ذرائع ابھی تک محفوظ، سر گرم، اور قائم دائم ہیں۔ مسلمان جدیدیت کے تمام نتائج کو پس پشت ڈالنے کے لیے جدیدیت اور روایت کا موازنہ نہیں کرتے بلکہ وہ جدیدیت اور دیگر انسانی تجربات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں تا کہ وہ اسے اپنی اقدار، نظریے اور روایات پر اپنائیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک علمیات تمام معاشروں اور تہذیبوں کا احاطہ کرنے کا دعوی نہیں کرسکتی ، خصوصاً مسلمانوں سمیت ان کا جن کے پاس علم کی بھرپور میراث ہے ۔ مغربی تہذیب کی متنوع عالمی نظریات اور دیگر تہذیبوں کی اقدار پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کے منفی نتائج کا بھی سامنا کرناچاہئے۔ انسان کوعلم کے الہامی ذرائع پر مبنی نظریات اور روحانیت سے جوڑنا ایک بنیادی کام ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نظریاتی الجھن کو حل کرنا سائنسی اور تعلیمی مراکز کا کام ہے۔
پروفیسر انیس احمد نے کہا کہ تہذیب ، ثقافت اور اقدار کا مطالعہ سابقہ نوآبادیات کے فریم ورک میں کیا گیا ہے جو ان کے اپنے عالمی نظریات اور معاشرتی تعمیرات پر مبنی ہیں۔عقیدے پر مبنی عالمی نظریہ کے تحت علم کا اصل ذریعہ عبور ، جامع اور قابل اطلاق ہونا چاہئے۔ کوئی تصور یا نظریہ اس معیار پر حقیقی علم کا ذریعہ ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا ہے۔اسلامی علمیات دوہری نہیں ہے اور دین اور دنیا کے مابین کوئی لکیر نہیں کھینچتا ہے۔ بلکہ یہ توحیدی نظریہ سے اخذ کیا گیا ہے۔
پروفیسر محی الدین ہاشمی نے کہا کہ علمیات کی صرف صحیح تفہیم ہی نظریاتی الجھن کو حل کرسکتی ہے۔ عقیدے پر مبنی نظریے کے تحت وحی میں روایت میں علم کی دریافت کے ذریعہ جدیدیت کو تسلیم کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔سیکولر علمیات میں علم کا واحد ذریعہ کائنات ہے ، اور روایت کی اہمیت کے باوجود ، جدیدیت کا مغربی تصور مفاہمت کے لئے تیار نہیں ہے۔اس فرق سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی نظریہ میں روایات اور اقدار مختلف ہیں جومسلمانوں کے لئے نا قابل اطلاق ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ اجتہاد مسلم روایت کا حصہ رہا ہے اور جدیدیت کو روایت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے متحرک اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم علماء کو ماورائی قرآن و سنت کی روشنی میں فکر و نظر کرنی چاہیے۔ اسی طرح جدیدیت کے مکمل فہم کے ساتھ قرآن و سنت سے علم کی ایک نئی صنف کو ابھارنے کی ضرورت ہے ۔ اور مسلم معاشرے کی ترقی اور پیش رفت کے لیے ایک نئی طرز فکر کی ضرورت ہے جو فرضی نہ ہو بلکہ جامع، ماورائی اور قابل عمل ہو۔
اس سے پہلے ڈاکٹر مُستَفِیض علوی نے کہا کہ روایت ثقافت اور اقدار کو منتقل کرتی ہے جب کہ جدیدیت نظریہ اور علم میں تبدیلی لاتی ہے۔ اس منتقلی اور تبدیلی نے علم کے نئے ذرائع اور بنیادیں پیدا کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایمان پر مبنی علمیات قرآن کی روشنی میں علم، منطق اور فلسفہ سے اخذ ہوتی ہیں ، انسانی علم کے دیگر تمام ذرائع – چاہے روایت میں ہو یا جدیدیت میں ہو – کو بھی قرآن سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلامی طرز فکر کے اندر اجتہاد انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جدید ترین علم کو بروئے کار لانے کا ذریعہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آؤٹ ریچ، آئی پی ایس، نے اسکالرز کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ آئی پی ایس اس موضوع پر مکالمے اور گفتگو کو فروغ دینے کے لیے دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
جواب دیں