سابق چیف اکنامسٹ فصیح الدین کی کتاب ‘مشاہداتِ زندگی’ کی تقریب رونمائی
سرتاج عزیز، پروفیسر خورشید احمد، کرنل (ر) اشفاق حسین اور دیگر کا خطاب
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) سے وابستہ معروف ماہر اقتصادیات اور سابق چیف اکنامسٹ، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، فصیح الدین کی کتاب "مشاہداتِ زندگی’ کی تقریب رونمائی 2 فروری ۲۰۱۷ کو انسٹی ٹیوٹ کے سیمنار ہال میں منعقد ہوئی۔ کتاب کوآئی پی ایس پریس (انسٹی ٹیوٹ کے اشاعتی بازو) نے شایع کیا ہے۔
کتاب دو حصّوں: ‘مشاہداتِ دنیا’ اور ‘مشاہداتِ دل’ پر مشتمل ہے۔ ‘مشاہداتِ دنیا’ مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین اور کہانیوں کا مجموعہ ہے اور ہر ایک کا محرّک کوئی مشاہدہ ہے۔ اس حصّے میں چار شخصیات پر مضامین شامل ہیں: پہلے حکیم محمّد سعید، دوسرے بابائے سنگاپور لی کوان یو، تیسرے شاہ ایران رضا محمّد شاہ اور چوتھے مصنّف کے ایک استاد، اکبر عادل۔ اس کے بعد دو سفروں کا قصّہ ہے جن میں ایک ترکی اور دوسرا دہلی کا سفرنامہ ہے۔ پھر دو مضامین ‘قومی اقتصادی پالیسی کی تشکیل’ اور ‘فرد اور ادارے کی نشونما’ آئی پی ایس میں دیئے گئے لیکچروں پر مبنی ہیں۔ کتاب کے دوسرے حصّے کو ‘مشاہداتِ دل’ کا عنوان دیا گیا ہے جو ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے پندرہ انشائیوں، خاکوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے۔
اس موقع پرتقریب کے مہمان خصوصی مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے کتاب کے مصنف کی ملک کے لیے بیش بہا خدمات کو یاد کرتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا اور کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بیڈ سائیڈ ٹیبل بک ہے جو خوشگواریت کے حصول کے لئے کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد نے تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ فصیح الدین نے پاکستانی اقتصادی کینوس کو اپنی پچھلی دو کتابوں میں پیش کرنے کے بعد اس کتاب میں شخصیت نگاری اور انشائیہ کے ذریعے حسین اور ہلکے پھلکے انداذ میں ادبی چاشنی کے ساتھ ساتھ اردو نثر میں ایک اچھا اضافہ کیا ہے اور یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ فصیح صاحب کے ساتھ پرانا تعلق ہے لیکن اس سارے عرصے میں انہوں نے اپنی شخصیت کے اس پہلو کو چھپائے رکھا اس کتاب کے ذریعے انکی شخصیت کے ایک نئے پہلو کو دیکھنے کا موقع ملا۔ گو کتاب کا نام تو مشاہدات زندگی ہے لیکن مشاہدات کے ساتھ ساتھ اس میں احساسات اور سفارشات دونوں موجود ہیں لیکن ایک دوسرے انداز میں۔ یہ تحقیق کی کتاب نہیں لیکن تحقیق کا حاصل تجربہ اورتفہیم اور تعمیرِنو کی سفارشات اس میں موجود ہیں۔
ڈی جی آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کتاب میں سے دو اقتباسات پڑھے اور کتاب کی کتابت کی روداد سناتے ہوئے انکشاف کیا کہ مصنف نے یہ کتاب خود کمپوز کی ہے۔
فصیح الدین نے بھی اس موقع پر اپنی کتاب کے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائےاورآئی پی ایس پریس کی ٹیم کو اس کامیاب تقریب کے انعقاد پر داد تحسین پیش کی۔
سابق ڈُپٹی چئیرمین، پلاننگ کمیشن اور مصنف کے دیرینہ رفیق سعید احمد قریشی نے کہا کہ جو کتاب فصیح الدین نے لکھی ہے اسکا دائرہ بہت وسیع ہے اس میں سیاستدانوں کا ذکر بھی ہے اور سماجی کارکنوں کا بھی، حکومت کے ملازمیں اور ہر سطح کے لوگ بشمول بہشتی اور بابو کا تذکرہ موجود ہے ساتھ ہی ساتھ کچھ سربراہان مملکت کا تفصیلی تذکرہ بھی موجود ہے۔ ذاتی مشاہدات کے علاوہ انہوں نے اقتصادیات، قومی اقتصادی پایسی اور قومی ادارتی نشونما کا سفر بھی اپنے سفرناموں کے ساتھ کیا ہے۔میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ فصیح نے صبغت اللہ کی جو داستان لکھی ہے وہ بہت موٹیویٹنگ ہے جو ایک ان پڑھ انسان کی ترقی کے سفر کی داستان ہے۔ ایک چیز اس کتاب میں نمایاں ہے کہ فصیح زیر لب تھوڑا بہت تذکرہ لوگوں کا اوپر نیچے ضرور کرتے ہیں لیکن نکتہ چینی کسی پر نہیں کرتے۔
جامعہ کراچی شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹرسید وقاراحمد رضوی تقریب میں پڑھ کے سنایا گیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ: "فصیح الدین صاحب روشن خیال، روشن ذہن اور روشن ضمیر ادیب ہیں۔ انکی طبیعت میں نشاط اور ضباط ہے جسکی وجہ سے انکے مضامین میں شیرینی اور شیوہ بیانی آگئی ہے۔ انکی کتاب "مشاہدات زندگی” زندگی کی عملی تصویر ہے۔ انکے بعض مضامین میں حس مزاح بھی ہے جسکے ذریعے انہوں نے زندگی میں رنگ بکھیرے ہیں۔ بات یہ ہے کہ دراصل مزاح نگار معاشرے کا معمار ہوتا ہے۔ مزاح ایک رجحان ہے جسکا تعلق انسان کے شعوراورلاشعورسے ہے۔ مزاح دراصل دکھوں اور غموں پر پردہ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ اصل قہقہوں کے پیچھے آنسو جھلملا رہے ہوتے ہیں۔ چہرے پر تبسم کا نقاب ڈال کر مزاح کا مقصد صرف ہنسنا ہنسانا نہیں بلکہ نفسی انضباط پیدا کرنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جناب فصیح الدین صاحب نے اس سلسلے میں اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کیا ہے انکا اسلوب بگارش ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ انکے مضامین میں افسردگی نہیں ہے۔ میں ان کو اتنی اچھی کتاب لکھنے پر ثمین قلب سے مبارباد پیش کرتا ہوں۔”
"مشاہدات زندگی” پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف نثرنگار کرنل (ر) اشفاق حسین نے کہا کہ کتاب میں نثر کی تمام امکانی اقسام: کہانی، سفرنامے، خاکے، انشائیے، سب موجود ہیں۔ انہوں نے فصیح الدین صاحب کے طرز تحریر اور اسلوب کو سراہا۔ "کتاب کیا لکھی ہے سندھی بریانی پکائی ہے”۔
جواب دیں