’صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کے لیےچیلنجز: دنیا اور جنوبی ایشیا کے لیے توقعات اوراس کے مضمرات‘
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے درپیش چیلنجوں پر گفتگو کرنے کے لیے آئی پی ایس میں منعقدہ ایک اجلاس میں مقررین نے اس بات پراتفاق کا اظہار کیا کہ نئے منتخب ہونے والے امریکی صدرکے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے کچھ اقدامات کو تبدیل کرنا یا ان سے واپس پلٹنا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کسی کو اب بھی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں کی سمت میں بہت سی تبدیلیوں کی توقع نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قیادت میں تبدیلی کے بعد ملک کے اسٹریٹجک مفادات میں کوئی بڑی تبدیلی کا امکان اب بھی نہیں ہے۔
ان خیالات کا اظہار یکم دسمبر 2020 کو ایک اجلاس میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ’صدر منتخب ہونے والے جوبائیڈن کے لیے چیلینجز: دنیا اور جنوبی ایشیا کے لئے توقعات اور اس کے مضمرات‘ ۔ اجلاس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ اجلاس کے شرکاء میں آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو ایمبیسیڈر(ریٹائرڈ) تجمل الطاف ، آئی پی ایس کے غیر رہائشی فیلو اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST ) کے شعبہ سنٹر فار پیس اینڈ اسٹیبلٹی سٹڈیز ( CIPS) کے ایسوسی ایٹ ڈین بریگیڈیئر (ر) تغرل یامین اور سینئر تجزیہ کار ایئر کموڈور (ر) خالد اقبال شامل تھے۔
الطاف نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ حالیہ امریکی انتخابات اس ملک کی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات تھے جہاں ڈالے گئے ووٹوں کے حساب سے کامیابی کا فرق انتہائی کم تھا۔ ٹرمپ نے شکست تسلیم کرلی ہے لیکن ابھی تک مفاہمت کی طرف نہیں آئے اور اپنے آخری ایام میں انہوں نےاپنے دور کے کچھ فیصلوں کو پلٹانے کی کوشش کرنانئے منتخب ہونے والے صدر کے لیے مشکل بنا دیا ہے۔
الطاف کا کہنا تھا کہ جوبائیڈن کے لیے ٹرمپ کے اٹھائے گئے کچھ اقدامات کو ختم کرنا ایک مشکل کام ہوگا اور شاید وہ ان سب کو ختم کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں گے۔ ان کے لیے فوری کام ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کا ہو گا جس میں کچھ لوگوں کے مطابق بڑھتا ہوا نقصان ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کے سبب ہے۔ جوبائیڈن کےلیے امریکی خارجہ پالیسی کی اصلاح اوراس کی ازسر نو تشکیل ایک اور مشکل کام ہوگا۔ چین کو وہ سیکیورٹی خطرہ کے طور پر تو شاید نہ دیکھیں لیکن اسے ایک اہم معاشی خطرہ ضرور گردانیں گے۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو وہ چین کے خلاف تزویراتی توازن کےطور پر استعمال کرنا چاہیں گے ۔ ایران کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں انہوں نے عوام کے سامنےمفاہمت کی روش اپنانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ افغانستان کے بارے میں جہاں وہ طالبان سے مذاکرات کرنا چاہیں گے وہاں فوجیوں کی واپسی کےلیے وقت بھی بڑھا سکتے ہیں اور مشرق وسطی میں ہتھیاروں کے معاہدوں میں سے کچھ ایسے پہلو ہیں ہیں جہاں وہ اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کر سکتے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی کا نیا تصور بھی دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل کے ساتھ امریکی اتحاد ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وہ چین، ہندوستان ، افغانستان اور جنوبی ایشیاء کو سامنے رکھ کر ہی دیکھیں گے جو کہ اسی حال میں رہ سکتے ہیں جیسے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کے لیےبائیڈن کے ساتھ بات چیت کرنا اور ٹرمپ کے ابتدائی اتار چڑھاؤ والے ایام کےبرخلاف نسبتا مستحکم تعلقات کے دور میں جانا آسان ہوسکتا ہے ۔ موسمیاتی تبدیلی اور جوہری عدم پھیلاؤ دونوں ممالک کے مابین ہم آہنگی اور تعاون کے لیے کچھ شعبوں میں سے ایک ہوسکتے ہیں جبکہ پاکستان کو افغانستان میں امن کے قیام میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ تاہم ، پاکستان کو نئی امریکی انتظامیہ سے کشمیر پرچند ادھر ادھر کے بیانات کے علاوہ زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
اقبال نے اسی طرح کی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن دور کے ابتدائی تین چارماہ میں ان کی پالیسیوں کا پتہ چلےگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جو تبدیلیاں کیں وہ کثیر جہتی تھیں جن میں سے بہت سی باتیں ان کے جانشین کے لیے پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ چین کا غیر معمولی عروج امریکہ کے لیے ایک اہم رکاوٹ بنا رہے گا لیکن اسے یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ ہندوستان کی شکل میں جنوبی ایشیاء میں جس اتحادی کو اس نے تلاش کیاہے وہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف کوئی مقابلہ نہیں رکھتا۔
پاکستان اور امریکہ کےتعلقات کے بارے میں اقبال نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ تاہم ، ان کے تعلقات میں جو کمی ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی سالوں کے دوران دیکھنے کو ملی تھی وہ شاید اب دیکھنے کو نہ ملے۔ جو بائیڈن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ متوازن نقطۂ نظر کے ساتھ روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے ۔ پاکستان کو افغانستان میں سیاسی استحکام ، اسلام آباد کی افغانستان میں امن مذاکرات میں مدد اور امن و استحکام ،جنوبی ایشیا ، اور پاکستان امریکہ دفاعی تعاون جیسے امورپر امریکہ سے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
یامین کی رائے تھی کہ ٹرمپ امریکہ کے لئے اچھے ’بیڈ کوپ‘ رہے کیونکہ انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے کچھ مشکل فیصلے کیے تھے تاہم ان کے جانے کے بعد عالمی بساط پر کوئی قابل ذکر تبدیلیاں رونما ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
پاکستان کے معاملے میں یامین نے کہا کہ واشنگٹن کو افغانستان میں بحران کے حل کے لیے اسلام آباد کی مدد کی ضرورت ہوگی اور پاکستان کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کے پہلوؤں پر کام کرے۔ یہ پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہوگا کہ وہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مؤثر طریقے سے پیش آئے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ ان نئے لوگوں سے حالات استوار کیے جائیں جو اقتدار میں آ رہے ہیں اور اہم امور پر یکساں رائے لانے کی کوشش کی جائے۔
رحمٰن نے امریکہ کی طرزِحکمرانی کی کامیابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی قیادت اور انتظامیہ میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود ماسوا چند خود اصلاحی پہلوؤں پر کام کرنےکےکسی نوعیت کی مستقل پالیسی میں بڑی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوبائیڈن تقریبا چالیس سالوں سے سیاست میں ہیں اور وہ ایک طویل عرصے سے اس نظام کا حصہ ہیں لہذا اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ ملک کی تزویراتی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلیاں لائیں۔ دوسری طرف، پاکستان کو ان مصنوئی تبدیلیوں میں بھی مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ سازگار مقامات کو تلاش کرنے کی کوشش کرے اور پھر اپنے طویل مدتی تزویراتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ک ام کرنے کی کوشش کرے۔
جواب دیں