عالمی یومِ امن:دائیں بازو کی انتہاپسندی علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے
دائیں بازو کی انتہاپسندی کو بڑھانا علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ پوری دنیا میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کا بڑھنا خطرے کے قریب پہنچنے کی واضح علامت ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت جس طرح کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا نظریے پر قائم بھارتی حکومت کے اقدامات جیسے واقعات عالمی امن کے لیے انتہائی سنگین خطرہ ہیں۔
دائیں بازو کی انتہاپسندی کو بڑھانا علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ پوری دنیا میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کا بڑھنا خطرے کے قریب پہنچنے کی واضح علامت ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت جس طرح کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا نظریے پر قائم بھارتی حکومت کے اقدامات جیسے واقعات عالمی امن کے لیے انتہائی سنگین خطرہ ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی نیشنل اکیڈمی کونسل کے سالانہ اجلاس میں کیا گیا جس کا اجلاس 21 ستمبر 2019ء کو آئی پی ایس میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالد رحمٰن نے کی۔ شریکِ مجلس افراد میں شمشاد احمد خان سابق وفاقی سیکرٹری خارجہ امور، مرزا حامد حسن سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ پانی و بجلی، ڈاکٹر وقار مسعود سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ، فصیح الدین سابق چیف اکانومسٹ پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر سارہ صفدر ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن، مفتی منیب الرحمٰن صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان، بیرسٹر سعدیہ عباسی سابق سینیٹر، پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (RIU)، ڈاکٹر سید محمد انور رکن اسلامی نظریاتی کونسل، پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت وائس چانسلر یونیورسٹی آف سندھ، ڈاکٹر سید طاہر حجازی وائس چانسلر مسلم یوتھ یونیورسٹی، ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال دفاعی تجزیہ کار، ڈاکٹر قاسم بگھیوسابق چیئرمین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز اور امان اللہ خان سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شامل تھے۔
شرکاء نے پوری دنیا میں دائیں بازو کے انتہاپسند گروپوں کے بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش کا اظہار کیا جو زیادہ سے زیادہ طاقت و قوت حاصل کرنے اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے کسی بھی حد پر جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ مقررین کی رائے میں بریکزٹ بھی اسی طرح کے نظریہ سے تقویت حاصل کیے ہوئے تھا جبکہ دائیں بازو کے ہندوستانی رہنما مودی کے ذریعہ کشمیر کا محاصرہ بھارت میں انتہا پسند حکومت کی کلاسیکل مثال ہے۔
مقررین نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جلد یا بدیر عالمی امن کے لیے خطرہ بن جانے والے طبقات پر نظر رکھے کیونکہ ایسا کرنے میں ناکامی پر علاقائی اور عالمی امن تباہی کی طرف جاسکتا ہے۔ یہاں پر ذکر کرنا ضروری ہے کہ سال میں ایک بار آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل ملک بھر کے ممتاز دانشوروں، علماء، اکیڈمک رہنماؤں اور تجزیہ کار ماہرین کی مجلس ہے جنہیں ادارہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے۔ یہ مشاورتی مجلس انمول علمی مشوروں اور تنقیدی آراء کی مشکل میں انسٹی ٹیوٹ کے کام میں مستقل طور پر رہنمائی کرتی ہے۔
جواب دیں