ماہرین کا پاکستان میں شمسی توانائی کی ترقی کو تیز تر کرنے کے لیے قومی سطح پر مہم چلانے کا مطالبہ
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ ایک مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے توانائی کے ماہرین نے پاکستان میں کوئلہ پر مبنی بجلی کی پیداوار کو کم کرنے کے لیے تمام متعلقہ فریقین کی مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا اور 2030 تک ملکی توانائ کے 60 فیصد تک کے حصّے کو قابل تجدید توانائ میں تبدیل کر دینے پر توجہ مرکوز کرنے پر اصرار کیا۔
22 دسمبر 2020 کو ہونے والے اس اجلاس کا انعقاد آئی پی ایس کی طرف سےہونے والے ایک مطالعہ پر تبادلہ خیال کرنے کےلیے کیا گیا تھا جس کا عنوان تھا ‘Barriers and Drivers of Solar Prosumage: A Case Study of Pakistan’ ۔ اس اجلاس میں میزبانی کےفرائض سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے ادا کیے جبکہ صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمان نے کی۔ اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی، ورلڈ ونڈ انرجی ایسوسی ایشن پاکستان، قائد اعظم یونیورسٹی اور رورل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ممبران شامل تھے۔
اجلاس میں قومی توانائی کے شعبے میں در آنے والی دائمی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے شمسی توانائی کو قابل عمل ذریعہ قرار دیتے ہوئےمقررین نےاس بات پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا کہ پاکستان میں بجلی کے شعبے میں رکاوٹوں نے ملک میں سولر پی وی پر مبنی نیٹ میٹرنگ کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔
مقررین نے انٹرکنکشن مرحلے میں ریگولیٹری رکاوٹیں، ٹیکنالوجی پرعدم اعتماداور اس پر انحصار،مالی معاملات تک رسائی میں مشکلات اور ڈسکوز کی سطح پر جمود جیسی بہت سی رکاوٹوں کو بھی نمایاں کیا۔ وزارت توانائی (پاور ڈویژن) پر زور دیا گیا کہ وہ شناخت شدہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مداخلت کا ایک فریم ورک متدبرانہ انداز میں وضع کرے۔ اس مباحثے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگائَے جانے والے مطالعے کا حصول بھی آسان نہیں ہے جس کی وجہ سے اس بات کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ جہاں کوئلے کے بجلی گھر لگائے جا رہے ہیں وہاں پرزمینوں کی ہونے والی بربادی اور ان کے حیاتیات پر متنوع اثرات کیا ہوں گے۔
جواب دیں