محفوظ طریقوں سے توانائی کی پیداوار پاکستان کے لیے ماحولیاتی سلامتی کا واحد راستہ ہے: آئی پی ایس
گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس نے 2020 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ممکنہ طور پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جن ممالک کی فہرست شائع کی ہے اس میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس ضمن میں زمین سے نکالے جانے والے ایندھن کا استعمالبھی، جس میں کوئلہ ، گیس اور ایندھنی تیل شامل ہیں، ملک کے ماحولیاتی مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جلد از جلد ملک کو قابل تجدید توانائی کی سمت لے جانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، جبکہ ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں خوراک ، پانی اور توانائی کی سلامتی سے متعلق موجودہ خطرات کئ گنُا بڑھ جائیں گے۔
گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس نے 2020 کی اپنی سالانہ رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ممکنہ طور پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جن ممالک کی فہرست شائع کی ہے اس میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس ضمن میں زمین سے نکالے جانے والے ایندھن کا استعمالبھی، جس میں کوئلہ ، گیس اور ایندھنی تیل شامل ہیں، ملک کے ماحولیاتی مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جلد از جلد ملک کو قابل تجدید توانائی کی سمت لے جانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، جبکہ ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں خوراک ، پانی اور توانائی کی سلامتی سے متعلق موجودہ خطرات کئ گنُا بڑھ جائیں گے۔
ان خدشات کا اظہار آئی پی ایس کی توانائی ، پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے پہلے سالانہ اجلاس میں کیا گیا جو 30 ستمبر 2020 کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) ، اسلام آباد میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس کا مقصد کمیٹی کی گزشتہ سال میں کی جانے والی پیش رفت اور آئیندہ سال کےمنصوبوں کا جائزہ لینا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے کی جبکہ اس سےخطاب کرنے والے افراد میں سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی اشفاق محمود، سابق ممبر توانائی، پلاننگ کمیشن آف پاکستان اور توانائی سے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف سیّد اختر علی،سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور توانائی کے امور سے متعلقہ وکیل آمینہ سہیل، ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن، جی ایم آپریشنز آئی پی ایس نوفل شاہ رخ اور انسٹیٹیوٹ کی انرجی اینڈ واٹر پروگرام کی ٹیم کے ممبران نائلہ صالح ، سارہ اور ولی فاروقی شامل تھے۔
محفوظ توانائی کے استعمال کے حوالہ سے، جو کہ پاکستان کے لیے ماحولیاتی سلامتی کے مستقبل کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے، اس بات پر زور دیا گیا کہ محفوظ توانائی کے وسیع استعمال کے راستے میں رکاوٹوں کو بروقت حل کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف انتہائی مؤثر ، قابل عمل ، قابل اعتماد اور توانائی پیدا کرنے کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے ، بلکہ اس کے استعمال سے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے اور پاکستان میں دستیاب مقامی قابل تجدید توانائی کے وسائل کو بروئے کار لانے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ بات بھی محل نظر رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کےحوالے سے پہلے ہی پانچواں متاثرہ ترین ملک ہے جو اس حوالے سے مزید نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ کراچی سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں کو ان خطروں کی محض ایک جھلک سمجھنا چا ہیے جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں ۔
میٹنگ میں یہ نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ دیگر معاملات کے ساتھ متعلقہ حکام کی جانب سے ارادےکا فقدان بھی ہے، جن کے پاس نہ تو تکنیکی مہارت ہے اور نہ ہی اس سمت جانے کا عزم۔ مزید برآں، جہاں تک گرڈ آپریٹرز کا تعلق ہے، بیس لوڈ پاور پلانٹس کے زیرِ اثر گرڈ کا نظام کیونکہ ان کے لیے چلانا زیادہ آسان ہے، اس لیے وہ اس کے ماحولیاتی نقصانات اور مُضِر اثرات کے باوجود اسےمعمول کے مطابق جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
توانائی کے ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت حکومت کی جانب سے کیئے گئے زمینی اقدامات نہ صرف ’متبادل اور قابل تجدید توانائی‘ کے لیے 2019 کی پالیسی میں طے کردہ اہداف کے بر خلاف ہیں ، بلکہ عالمی اور علاقائی سطح پر قابل تجدید توانائی کے ضمن میں کی جانے والی ترقی اور پیش رفت سے بھی متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر ، ساہیوال اور حب میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹ ، اور تھرپارکر اور گوادر میں لگائے جانے والے دوسرے دو منصوبے مذکورہ پالیسی کے براہِ راست متضاد ہیں ۔ مقررین نے کہا کہ اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جب پاکستان کے پاس کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں تو اسے توانائی پیدا کرنے میں کیوں استعمال نہیں کیا جاتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں کے باعث پاکستان کا انحصار درآمد شدہ ایندھنی کوئلے پر بڑھ رہا ہے جس کی لاگت آئی پی پیز کے برابر ہے، اور اِس نے گردشی قرضوں کے بڑھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جو اب اربوں سے بڑھ کرکھربوں تک پہنچ گئے ہیں۔
مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گردشی قرضے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی یا مناسب اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ ملک میں ریگولیٹرز اپنا کردار مناسب طریقے سے ادا نہیں کررہے اور بہت سے متعلقہ محکمے اعداد و شمار کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ساہوکاربلا جواز بلوں کا مطالبہ کرتے ہیں ، جو بغیر کسی تجزیہ یا فرانزک آڈٹ کے حکومت قبول کرلیتی ہے ۔
مقررین نے اس بات پربھی روشنی ڈالی کہ ملک میں پیداواری صلاحیت پہلے ہی ملک کی ضروریات کو عبور کرچکی ہے۔مقررین کے مطابق ، این ٹی ڈی سی جیسے ریاستی اداروں کے پاس ملکی سطح پر تحقیق کے وسائل نہیں ہیں جس سے وہ پیداوار یا ملک میں تقسیم کی صلاحیت کا اندازہ کرسکیں۔ اس نے اس کام کو 2018 میں کسی اور ادارے کو سونپا اوراب حال ہی میں یہ مطالعہ مکمل ہوچکا ہے۔ تاہم اس کام کی تکمیل میں اتنا لمبا عرصہ لگا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں جو انڈیکیٹرز اور منظر نامے استعمال کیے گئے ہیں وہ اب پرانے ہوچکے ہیں۔
ماہرین نے زور دے کر کہا کہ قابل تجدید وسائل کی طرف بڑھنے میں جو مسائل پاکستان کو درپیش ہیں وہ نئے نہیں ہیں کیونکہ اس سے قبل یورپی ممالک کو بھی اسی طرح کے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم وہ آخرکار بہت سی غلطیوں سے سیکھ کر اور رکاوٹوں کو عبور کر کے بہترین حکمتِ عملی بنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ان حالات میں پاکستان کےلیے بھی ضروری ہے کہ وہ پہلے سے موجود طریقوں کو دوبارہ وضع کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے باقی دنیا کے تجربات سے استفادہ حاصل کرے۔
آخر میں شرکاء کومطلع کیا گیا کہ آئی پی ایس اس سلسلے میں جرمنی میں قائم نامور ادارے Agora Energiewende کے ساتھ تعاون کا آغاز کرچکا ہے۔ یہ تعاون ، جو کہ قابل تجدید توانائی کی منتقلی سے متعلقہ مہارت کو فروغ دینے اورنئ ابھرتی ہوئ معیشتوں پر کام کرنے والے تھِنک ٹینکس کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے پر مبنی ہے، پاکستان کے تناظر میں پائیدار توانائی کی منتقلی کے لیے سازگار ماحول بنانے اور متعلقہ وسائل کو متحرک کرنے اور بروِ ےکار لانےمیں مدد فراہم کرے گا۔
جواب دیں