ورلڈ بینک پانی کے معاملات پر بھارت کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے
ثالثی کی بین الاقوامی عدالت کی واضح قانونی تشریح سندھ طاس معاہدے سے متعلق کسی بھی منصوبہ کو تنازع کے حل کے بغیر تعمیر پر پیش رفت سے روکتی ہے۔ چنانچہ اس عدالتی وضاحت پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں ممالک کو اس کا پابند بناتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی قانون کی ماہر شمائلہ محمود نے کیا جو“Kishanganga & Rattle Projects: Deliberating on IWT’s Dispute Resolution Mechanism & the Way Forward” کے موضوع پر ہونے والے ایک اجلاس سے مخاطب تھیں۔ یہ نشست 5 اپریل 2017ء کو آئی پی ایس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔
شمائلہ کے ساتھ اس اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں پانی اور توانائی کے ماہر اور وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری اشفاق محمود اور وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری اور آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن مرزا حامد حسن بھی شامل تھے۔
شمائلہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے متنازعہ علاقہ میں بننے والے کسی بھی منصوبے پر ہمیشہ یہ کہتے ہوئے اعتراض اٹھایا ہے کہ اس کے لیے این او سی کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے بھارت کے اس مؤقف کی ورلڈ بینک نے ہمیشہ حمایت کی ہے۔ لیکن جب پاکستان نے اسی طرح کے کسی بھارتی منصوبے پر سوال اٹھایا ہے تو اسے ہمیشہ یہ سننے کو ملا ہے کہ اس سے پاکستان متاثر نہیں ہو گا۔ حالانکہ یہ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ اس طرح کے منصوبے پاکستان کو اس لیے متاثر کرتے ہیں کہ پاکستان دریائوں کے رخ کے لحاظ سے نیچے واقع ہے۔ مزید یہ کہ اسی طرح کے مقدمات میں یہ پرکھ بھی کی جانی ضروری ہے کہ معاہدے میں متعین کیے گئے نکات کو مقدم رکھا جا رہا ہے یا نہیں۔ اب اگر ورلڈ بینک بھارت کے اعتراضات کے باعث پاکستان کو کسی ایسے پراجیکٹ پر رقم لگانے کی اجازت نہیں دیتا تو یہ ورلڈ بینک کے خلاف کیس بنتا ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انہوں نے کہا کہ رتلے پراجیکٹ کے معاملے میں بھی بھارت ایک بین الاقوامی فیصلے کو نظرانداز کر رہا ہے حالانکہ ثالثی میں متعین کیے گئے نکات کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔ حالانکہ اس کے اپنے مقامی قوانین ثالثی کے متعینہ نکات کو احترام دینا سکھاتے ہیں لیکن وہ دانستہ اس کو نظرانداز کر رہا ہے محض اس لیے کہ اس کا مفاد اسی میں ہے۔
شمائلہ نے کہا کہ پاکستان کو اس پر مضبوط مؤقف اپنانا چاہیے اور ورلڈ بینک پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہے اور مزید کسی تاخیر کے بغیر اس مسئلے کو حل کرے۔
اشفاق محمود نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پانی کے معاملات پر ہماری ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے بہتر حکمتِ عملی وضع نہیں کی۔ ہم نے اپنی ماضی کی ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مؤقف کی بہتر انداز میں لابنگ نہیں کی۔ بھارت نے اس سارے عمل کو انڈس واٹر کمیشن کی سطح پر روکے رکھنے کی حکمتِ عملی بنائی جبکہ پاکستان نے تعمیرات کے وقت بھارت کے مؤقف سے انکار کرکے اگلی سطح پر معاملے کو لے جانے میں چابکدستی نہیں دکھائی۔ کرشن گنگا اور ریٹل کے منصوبوں پر کمیشن کچھ کرنے سے عاری نظر آرہا تھا۔ معاہدے کی بھارتی خلاف ورزیوں کے خلاف پاکستان کا کردار غیرفعال تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب دونوں فریق یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکتے اور اسی وجہ سے ثالثی کا راستہ اختیار کیا ہے تو ورلڈ بینک کس طرح اس عمل کو موقوف کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہ کرنے کے سبب ورلڈ بینک پر کیس کر دینا چاہیے کیونکہ اس سے بھارت کو وقت مل رہا ہے اور ورلڈ بینک کی غیرجانبداری سوالیہ نشان بنے کھڑی ہے۔
مرزا حامد حسن نے کہا کہ ہم نے سندھ طاس معاہدے کو پانی کے تمام مسائل کا علاج بنا رکھا ہے۔ 1960ء کے بعد سے، جب یہ معاہدہ طے پایا تھا، ٹیکنالوجی اور سائنس کی دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں چنانچہ ماحولیاتی اثرات جیسے نئے عوامل پر بھی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ انڈس واٹر کمیشن کی اہلیت میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اس کے عملے میں قانونی اور تکنیکی ماہرین کا وجود بھی ضروری ہو چکا ہے
جواب دیں