پالیسی پرسپیکٹیوز کا تازہ شمارہ
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے اپنے تحقیقی جریدہ ’’پالیسی پرسپیکٹیوز‘‘ کے تازہ شمارہ (جلد12، شمارہ2) میںعلاقائی منظرنامے اور دیگر عالمی خدشات کے پس منظر میں ابھرنے والے موجودہ پالیسی امور پر متنوع نقطہ ہائے نظر پیش کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ یہ ششماہی جریدہ انسٹی ٹیوٹ اور اس کے معاون محققین کی کاوشوں کو پیش کرتا ہے۔ یہ تحقیقی جریدہ اب بین الاقوامی سطح پر آن لائن دستیاب ہے۔ اسے معروف ادارے پلوٹو جرنلز کے ذریعے جے سٹور (www.jstor.org) پر خریدا جا سکتا ہے۔ نیز ایشیا نیٹ ورک کے ذریعے فیکٹیوا (Factiva) کے بین الاقوامی ڈیٹا بیس پر اس کے متن کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تازہ شمارے میں ڈاکٹر ذوالفقار خان اور فوزیہ امین کا تحریر کردہ پہلا مضمون ایشیا پیسیفک کی اس تزویراتی ساخت پر بحث ہے جو ان دنوں چین کے مقابلے میں متوازی پالیسی وضع کرنے کی خاطر امریکی کردار اور کاوشوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ ابھرتا ہوا یہ منظرنامہ امریکہ، چین اور ان کے اتحادیوں کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار کی ایک پیچیدہ صورت حال کی عکاسی کر رہا ہے تاہم اس سب کے باوجود روایتی قومی ریاستیں دشمنوں کی تلاش پر کمربستہ ہیں تاکہ انہیں حالات کے مطابق نئی صف بندی کی طرف دھکیل سکیں اور اپنے مفادات کا ازسرنو تعین کر سکیں۔
دوسرا مضمون ڈاکٹر نذیر حسین کا تحریر کردہ ہے۔ جس میں زیر بحث موضوع یہ ہے کہ اگرچہ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکہ ایران تعلقات تنازعہ سے بھرپور رہے تاہم حال ہی میں بدلتے ہوئے علاقائی سلامتی کے ماحول میں ایران کی جغرافیائی و سیاسی پوزیشن کے باعث ایک جامع جوہری معاہدے کے لیے باہمی اتفاق رائے پر مبنی فریم ورک نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم ہونے کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن کا تحریر کردہ اگلا مضمون آج کے افغانستان کا جائزہ ہے۔ جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کابل میں موجودہ نظام پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مستحکم شمار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم سلامتی کے امور، سیاسی اور سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے متعلق بہت سے مسائل اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ رائے سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت اور اس سے مزاحم قوتوں کو امن کا عمل ممکن بنانے کے لیے اپنے موقف میں نرمی لانے کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی ممالک کا کردار اور اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، جس کا قائدانہ کردار ابھی تک نظر نہیں آتا، انتہائی اہم ہے۔
یمن کا بحران اور پاکستان کی گومگو کی کیفیت اگلے مضمون کا موضوع ہے۔ چند حالیہ واقعات پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے اس مضمون کے مصنف ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال نے پاکستان کے بحران اور اس کی سعودی عرب اور ایران کے ساتھ متوازی تعلقات قائم رکھنے میں تزویراتی ضرورت کی اہمیت پر توجہ مبذول کی ہے۔
اگلے دو مضامین بھی کسی حد تک اس سے متعلقہ موضوع پر ہی تحریر کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے مضمون میں چارلی ہیب ڈو واقعہ کے پس منظر میں یورپ میں مسلمانوں کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالوھاب سوری کا مضمون مغربی حلقوں کی علمی بحث میں اسلامی بنیاد پرستی پر ہونے والی گفتگو میں الفاظ کے اظہار اور اندازِ بیان کو سامنے لاتا ہے۔
بعد کے مضمون میں ہندوئوں کی شادی پر کسی مخصوص قانون کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے جس کی کمی کا شکار ملک کی بہت بڑی اقلیت ہے۔ آئی پی ایس کے ریسرچ کوآرڈی نیٹر سید ندیم فرحت کی تحقیق پر مبنی اس مضمون میں ہندو کمیونٹی کے اندر اس موضوع پر آرا کے اختلافات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ قانونی تجاویز حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی ہیں۔
آخری آرٹیکل آئی پی ایس کے لیڈ کوآرڈی نیٹر عرفان شہزاد اور اسسٹنٹ ریسرچ کوآرڈی نیٹر وقار النساء کی مشترکہ کاوش ہے ۔ جس میں پاکستان کی طرف سے بجلی درآمد کرنے کے بہت سے عوامل کے امتیازی اوصاف اور خامیوں پر نظر ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں اس رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ CPEC کے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ بجلی کی خاطر خواہ مقدار ملکی گرڈ میں شامل ہو جائے گی جس سے پاکستان اپنی درآمدات کا ازسرنو جائزہ لینے اور ان کی ترجیحات کو دوبارہ متعین کرنے کی ضرورت محسوس کرے گا۔
رابطہ اور خریداری کے لیے:
naufil@ips.net.pk
publications@ips.net.pk
جواب دیں