‘پاکستان-افغانستان تعلقات میں ٹیریفیلیا ریٹریبیوٹا’
25ویں ترمیم کا درست نفاذ سابق فاٹا کے انضمام کے خلا کو پر کر سکتا ہے: ڈاکٹر فرحت تاج
25ویں ترمیم پر حرف بہ حرف عمل درآمد وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقوں (فاٹا) کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جانب ایک تبدیلی کی پیشرفت ہے۔ یہ ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو سماجی-سیاسی ایمپاورمنٹ، علاقے کے عوام کے لئے نمائندگی، اور پاکستان کے آنٹولوجیکل انسیکیوریٹیز سے متعلقہ انتظام کو بہتر اور مضبوط بناتا ہے۔
ناروے کی یونیورسٹی آف ٹرومسو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحت تاج نے یہ بات 27 دسمبر 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) میں منعقدہ ‘پاکستان-افغانستان تعلقات میں ٹیریفیلیا ریٹریبیوٹا’ کے عنوان سے تیار کیے گئے تحقیقی مضمون پر ایک پریزنٹیشن اور گروپ ڈسکشن کے دوران کہی۔
پریزنٹیشن کے بعد آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، فاٹا کے امور کے ماہر ڈاکٹر لطف الرحمان، افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور موجودہ وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین، پشاور یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، سابق سفیر ایاز وزیر، اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے گفتگو کی۔
پاکستان-افغانستان کی شناخت کے تصادم کے تناظر میں مذکورہ تحقیقی مضمون یہ دریافت کرتا ہے کہ کون سی ریاست کے پاس ‘بہتر’ آنٹولوجیکل (ان) سیکیورٹی مینجمنٹ کے معمولات موجود ہیں۔ اپنے نتائج کو پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر فرحت کا کہنا تھا کہ اپنی مخصوص طاقتوں اور ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہونے کے باوجود، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ‘مسائل کے اندر موجود مسائل’ کے مخمصے میں جکڑے ہوئے ہیں، اور روایتی بین الاقوامی تعلقات اور پولیٹیکل سائنس کے نظریات اس رشتے کی جامع تفہیم کے لیے کام نہیں کرتے۔
انہوں نے پاک افغان تعلقات اور کمپلیکسیٹی تھیوری کے فریم ورک کے اندر ان کے متعلقہ آنٹولوجیکل (ان) سیکیورٹیز کے انتظام پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ افغانستان کے انتظامی معمولات یا منفی تاثرات کی روٹین اس کی ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول نہ کرنے، پاکستان کے پشتون علاقے کے بارے میں اس کے مبہم موقف، اور مخصوص آنٹولوجیکل (ثقافتی) بیانیے کے گرد گھومتی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کا سب سے مضبوط اور مستحکم منفی فیڈ بیک لوپ پشتونوں کے آباد علاقوں سے ریاستی ڈھانچے میں انضمام کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبوں میں ان کے سماجی و اقتصادی تعلقات کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان قبائلی علاقوں میں انضمام کو وسعت دیتا ہے تو اس سے پاکستان کے لیے امیدیں وابستہ ہیں۔
تحقیقی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان کو پشتونوں کو ضم کرنا چاہیے، ان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے، سابق فاٹا باسیوں کو شہری بنانا چاہیے اور 25ویں ترمیم کو اپنے انتظامی معمول کے حصے کے طور پر عملی طور پر نافذ کرنا چاہیے۔ یہ سب جامع ترقی کی جانب پیش قدمی، تفاوت کو ختم کرنے، اور پاکستان کے منظر نامے کے وسیع تر تانے بانے میں ہم آہنگ انضمام کو فروغ دینے کی بنیاد رکھے گا۔
ان خیالات کی توثیق دیگر مقررین نے بھی کی جنہوں نے زور دیا کہ انضمام اور آنٹولوجیکل (ان) سیکیورٹیز کے مسائل پیدا کرنے والا ایک بڑا عنصر 25ویں ترمیم کا نامکمل نفاذ ہے۔ مزید برآں، مقررین نے فیصلہ سازی کے عمل میں پشتونوں کے بہتر انتظام اور شمولیت کے لیے مزید اسٹیک بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ منفی فیڈ بیک لوپ کے طور پر امیج بلڈنگ کو بھی جگہ دی جائے جس میں پشتونوں کو خوش کرنے کی پالیسی بھی شامل ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ پاک افغان تعلقات کے اونٹولوجیکل ان (سیکیورٹیز) کے انتظام کے معاملے کو ایک بڑے فریم ورک میں عوامل پر غور کرنا چاہیے، جیسے طویل تاریخی پس منظر، افغانستان میں غیر پشتون لوگوں کی خاطر خواہ آبادی، پاکستان اور افغانستان کی ریاستی شناخت کے نشان کا سوال، سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں کے اثرات اور حیثیت، اور پشتون اشرافیہ کے مفادات اور اسٹیکس، وغیرہ۔
جواب دیں