‘پاکستان میں آئی پی پیز کا منظرنامہ’
آئی پی پیز کی استعدادِ کار میں توسیع کا حکومتی منصوبہ گردشی قرضوں کے بحران کو بڑھا سکتا ہے : آئی پی ایس کا تحقیقی مطالعہ
حکومت کا سال 2034 تک بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 7,500 میگاواٹ اضافہ کرنے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے لائسنس کی توسیع کرنے کا ارادہ ممکنہ طور پر اس شعبے میں گردشی قرضوں کے بحران کو بڑھا سکتا ہے۔ مالی سال 2022-2023 میں 12,847 میگاواٹ کی مشترکہ صلاحیت رکھنے والے 100 آئی پی پیز میں سے 17 کو ان کی پیداواری صلاحیت کی ادائیگی 472.12 بلین روپے تک پہنچ گئی، جبکہ 9 قابلِ ذکر آئی پی پیز کو بھاری سود کی ادائیگی 133.5 بلین روپے تھی۔ بعض صورتوں میں اس سود کی رقم پیداواری صلاحیت کے عوض ادائیگی اور بجلی کی خریداری ، دونوں کی قیمتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
موجودہ نصب شدہ صلاحیت 45,000 میگاواٹ ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ طلب 30,000 میگاواٹ سے تجاوز کر رہی ہے، مزید توسیع اور لائسنس کی تجدید مالی ادائیگی کی ذمہ داریوں میں اضافے کا خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو ایک متوازن توانائی کی حکمت عملی اپنانا چاہئے، جس میں مالی استحکام پر توجہ مرکوز کی جائے اور پیداواری صلاحیت کی توسیع اور آئی پی پی کے لائسنس کی تجدید پر دوبارہ غور کیا جائے۔
یہ نتائج انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی جانب سے آئی پی پیز پر ایک اہم تحقیقی مطالعے کا حصہ تھے، جو11 ستمبر 2024 کو ‘پاکستان میں آئی پی پیز کا منظرنامہ’ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیشن کے دوران پیش کیے گئے۔ یہ نتائج آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسر محمد ولی فاروقی نے پیش کیے، جبکہ اس سیشن میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، توانائی سے متعلقہ معاملات کی وکیل اور سینئر تحقیقی معاون آئی پی ایس امینہ سہیل، قابل تجدید توانائی اور توانائی کی کارکردگی کے ماہر اسد محمود، اور سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے خطاب کیا۔
مطالعے میں نوٹ کیا گیا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے آئی پی پیز کو مجموعی طور پر 232 جنریشن لائسنس جاری کیے ہیں، جن میں سے صرف 100 پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے ذریعے کمیشن کیے گئے ہیں، جو قومی گرڈ میں 24,958 میگا واٹ فراہم کر رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس صلاحیت کا 53% یعنی 13,106 میگا واٹ صرف دس آئی پی پیز فراہم کرتے ہیں، جو پاکستان کی کل صلاحیت کا 30% ہے۔
دو بڑے آئی پی پیز، کیپکو اور حبکو، کے لائسنس بالترتیب 2024 اور 2025 میں ختم ہو جائیں گے، جس سے پیداواری صلاحیت میں 2,930 میگاواٹ کمی ہو سکتی ہے۔ یہ آئی پی پیز پرانے انفراسٹرکچر پر انحصار کرتے ہیں اور فوسل فیولز کا استعمال کرتے ہیں۔ پچھلی لائسنس کی تجدید کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعے نے تجویز دی کہ موجودہ پاور پرچیز معاہدوں کے ختم ہونے کے بعد نئے مذاکرات نہ کیے جائیں۔
پی پی آئی بی کی ویب سائیٹ کے مطابق حکومت 2034 تک 7,500 میگا واٹ کا اضافہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہےجس میں سے 916 میگاواٹ 2024 کے آخر تک دو نئے تعمیر شدہ میگا پراجیکٹس: دریائے کنہار پر سوکی کناری ہائیڈل پاور پراجیکٹ، جس کی صلاحیت 884 میگا واٹ ہے، اور شاہ تاج شوگر ملز کا ایک بیگاس پاور پلانٹ ، جس کی صلاحیت 32 میگاواٹ ہے، کے ذریعے نظام میں متعارف کرائے جائیں گے۔
مطالعے کے نتائج تجویز کرتے ہیں کہ اب توجہ ٹرانسمیشن سسٹمز کی بہتری، بجلی کی کھپت بڑھانے، اور حکومت کے زیرِ ملکیت پلانٹس کے ساتھ شرائط کے اوپر دوبارہ مذاکرات پر ہونی چاہیے تاکہ پیداوری صلاحیت کے عوض ادائیگی (کیپیسیٹی پیمنٹس) کو کم کیا جا سکے اور سود کی رقم کو منظم کیا جا سکے۔ مزید برآں، توانائی کی حکمت عملی کے لیے ایک متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں مالی استحکام پر زور دیا جائے اور صلاحیت کی توسیع کے منصوبوں پر دوبارہ غور کیا جائے۔
امینہ سہیل نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ طلب دستیاب بجلی کو مکمل طور پر ختم نہیں کرتی۔ انہوں نے اس صلاحیت کو بہتر بنانے کی تجویز دی کہ اضافی بجلی کو جاری کیا جائے اور کیپیسٹی پیمنٹس کو کم کیا جائے۔ ان آئی پی پیز کے لیے جن کے معاہدے ختم ہو رہے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ انہیں لائسنس کی تجدید کے بجائے اپنے خریدار تلاش کرنے کی ترغیب دی جائے، جو کہ شعبے کو ہموار کر سکتا ہے اور حکومت پر مالی دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
اسد محمود نے آئی پی پیز کے لیے آڈٹ کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا اور نجی شعبے کے لیے معقول منافع کے ڈھانچے کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی صنعت میں شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے بہتر نگرانی اور ایک اچھی طرح سے منظم مراعاتی نظام ضروری ہیں۔
خالد رحمٰن نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وسیع پیمانے پر پولرائزیشن کے باوجود آئی پی پیز سے متعلق چیلنجز اور مالی مسائل پر ایک مضبوط اتفاقِ رائے موجود ہے۔ یہ ان خدشات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت اور تحقیقی مطالعہ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مقررین نے فرسودہ مارکیٹ تجزیے، قانون کا غیر موثر نفاذ، ، مبالغہ آمیز سرمایہ کاری، اور نجکاری کے منفی اثرات پر تنقید کی۔ انہوں نے بحالی انصاف کی ترقی، سود کی ادائیگیوں کے انتظام، منافع کے استحصال سے نمٹنے اور پائیدار توانائی کے شعبے کے لیے ٹیکس اور بینکنگ کے نظام میں اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا۔
ماہرین نے اس ضرورت پر بھی روشنی ڈالی کہ حکومت بجلی کی مانگ کو بڑھانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے جس سے بجلی کے صارفین کی تعداد کو وسیع کرنے میں مدد مل سکے۔
اپنے اختتامی کلمات میں حامد حسن نے آئی پی پیز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے لیے مکمل نظام کی اصلاح کی ضرورت ہوگی، جس میں موثر جانچ اور نگرانی کے طریقہ کار کا قیام بھی شامل ہے، جو کہ فی الحال موجود نہیں۔ انہوں نے غلط منصوبہ بندی، ناقص پالیسی کے نفاذ، اور دیگر نظامی مسائل کو بنیادی مسائل قرار دیا اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک ماہر کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔
جواب دیں