چینی دانشوروں کا دورہ آئی پی ایس
معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات کے لیے پاک چین تعاون ناگزیر ہے
چین کے ایک نمایاں تھنک ٹینک چائنیز پیپلز ایسوسی ایشن فار پیس اینڈ ڈس آرمامنٹ (CPAPD) کے اسکالرز کے ایک وفد نے ۱۰فروری کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا دورہ کیا۔ دونوں اداروں کے اسکالرز گول میز اجلاس پر اکٹھے ہوئے اور دونوں ملکوں کے تزویراتی مفادات اور قریبی تعاون کے حوالے سے مشترکہ دلچسپی کے امور پر گفتگو کی۔ اس بات پر اتفاقِ رائے پایا گیا کہ پاکستان اور چین کو مشترکہ اقتصادی اور دفاعی مفادات کے تحفظ کی خاطر اکٹھے ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایساف کے افغانستان سے انخلاء کے پس ِمنظر کو سامنے رکھا جائے تو خطے میں ابھرتے نئے علاقائی منظر نامے میں دونوں ملکوں کے درمیان انتہائی قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی اس کی ضرورت مقدم ٹھہرتی ہے۔
چینی وفد کی سربراہ اور CPAPD کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل محترمہ شن ہوآئے فین نے دونوں ملکوں کے لیے انتہائی ضروری قرار دیا کہ وہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی و ثقافتی شعبوں میں اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کریں۔ ان کی رائے میں پاک چین اقتصادی راہداری میں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک مِل جُل کر کام کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس مفید گزرگاہ سے فوائد سمیٹنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
انہوں نے چین کے صدر زی جن پنگ کی تجویز کردہ ’’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک انتہائی فعال تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ چین اور پاکستان اس طرح کے دُور رَس اہمیت کے منصوبوں پر زیادہ بڑے پیمانے پر تعاون کریں گے۔ انہوں نے شاہراۂ ریشم کی بحالی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی ملک کو شاہراۂ ریشم کی اصطلاح استعمال کرنے کا حق نہیں ماسوا ان ممالک کے جو اس قدیم راستے کے ساتھ ساتھ اپنا وجود رکھتے ہیں‘‘۔
افغانستان میں ابھرتے ہوئے منظر نامے پر گفتگو کرتے ہوئے آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے کہا کہ امریکہ کا ایجنڈا واضح نہ ہونے کی وجہ سے 2014ء کے بعد خطے کے حالات پر پیش گوئی کرنا کافی مشکل ہے۔ افغانستان سے اقوامِ متحدہ کی افواج کے ’’انخلاء‘‘ (Withdrawal) سے افواج کی ’’جزوی واپسی‘‘ (Drawdown) کے الفاظ پر چلے جانے کے باعث حالات زیادہ غیریقینی ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں آئندہ ہونے والے انتخابات کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوجانے کے امکانات نے صورتِ حال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں انہوں نے چین کو اس خطے میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے والا ملک قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسے افغانستان میں قومی مفاہمت کو یقینی بنانے کے لیے خطے میں ایک اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
خالد رحمن نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ جدید جنگ بندوقوں اور بمبوں سے زیادہ نفسیاتی حربوں کے ساتھ لڑی جاتی ہے اور اس میں بیانیوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب بیان بازی کی جنگ کے باعث قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور ہم اس میدان میں اس سے بہت پیچھے ہیں۔ انہوں نے ’’بیانیوں کے جنگی ہتھیار‘‘ کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان اور چین اس مغربی ہتھیار کا سدِ باب کرنے میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے۔
چین کے وفد کے ارکان میں CPAPD کے کونسل ممبر یوزیانگ، ڈپٹی ڈائریکٹر زہو فاگین اور پراجیکٹ آفیسر زینگ جیافنگ بھی شامل تھے۔ وفد کو آئی پی ایس کے لیڈ کوآرڈی نیٹر عرفان شہزاد نے ادارے کے مقاصد، نقطۂ نظر اور کردار بالخصوص آئی پی ایس کے پاک چائنا پروگرام، اس کی سرگرمیوں اور مطبوعات سے آگاہ کیا۔
وفد کی سربراہ محترمہ شن ہوآئے فین نے آئی پی ایس کی ٹیم کو بیجنگ میں CPAPD کے دفتر آنے کی باضابطہ دعوت دی تاکہ علاقائی امن، سلامتی، معیشت، ثقافت اور دونوں ممالک میں لوگوں کے باہمی رابطہ کے لیے مل جل کر کام کیا جا سکے۔
نوعیت: مہمان وفد سے تبادلہ خیال
تاریخ: ۱۰ فروری ۲۰۱۴
جواب دیں