’ڈی کولونائزنگ اسلامک اسٹڈیز ‘
علم کی ڈی کولونائزیشن کے لیے ایک وسیع تر تخلیقی کاوش کی ضرورت ہے: آئی پی ایس سیمینار
علم کی ڈی کولونائزیشن کے لیے ایک وسیع تر تخلیقی کاوش کی ضرورت ہے: آئی پی ایس سیمینار
استعمار، جس کا مکمل رد ممکن نہیں، ہمارے نظریات، فلسفوں اور ہماری فکر پر استعماری طاقتوں کی طرف سے تسلط کردہ ایک رجحان ہے، جس کے اثرات اسلامی علوم میں بھی سوالات کو وضع کرنے، بیان کرنے اور سمجھنےمیں ہماری نااہلی کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
یہ نقطۂ نظر ڈاکٹر حمیرا اقتدار، ریڈر ان پولیٹکس، کنگز کالج لندن نے 31 مارچ 2022 کو آئی پی ایس میں منعقدہ ایک ہائبرڈ سیمینار کے دوران اپنی کلیدی تقریر میں پیش کیا جس کا عنوان تھا ” ڈی کولونائزنگ اسلامک اسٹڈیز“۔
سیمینار کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کی اور نظامت کے فرائض بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ تقابلی مذاہب کی اسسٹنٹ پرفیسر ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ نے ادا کیے۔ ان کے علاوہ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، آئی آئی یو آئی کے سابق ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک اورشعبہ اسلامک تھاٹ اینڈ سولائزیشن، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہورکی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حمیرا اقتدار دیگر تحقیق کاروں اور دانشوروں کے ساتھ پروگرام میں شریک تھے۔
مروجہ نظریات کاجائزہ لیتے ہوئے، ڈاکٹر حمیرا اقتدار نے کہا کہ بہت سے سیاسی نظریات اور فلسفے، جوایک محدود تاریخ کے حامل اور محض یورپ کی علمی تحقیق پر مبنی ہیں ، انہیں عالمگیر بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ڈی کولونائزیشن کی تحریک اصل میں زمبابوے، جنوبی افریقہ اور دیگر افریقی ریاستوں میں شروع ہوئی تھی ،جب ان علاقوں میں مروجہ تعلیمی ڈھانچے اور نصاب پر استعمار کے میراث کا الزام لگاتے ہوئےسوال اٹھائے گئے تھے، تاہم ڈی کولونائزیشن کو دنیا بھر میں سمجھنے کے لیے اس کے یورپ میں مرکز کو سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ان فلسفوں کی آفاقیت پر سوال نہیں اٹھاتا کیونکہ یہ علم اور تعلیمی اداروں کے ذریعے معاشرے میں ذہن نشین کرائے جاتے رہے ہیں۔
علم کی یہ کولونائزیشن اور صنعتی سوچ پروضع کردیا گیا تعلیمی نظام، ہمیں یہ سوال پوچھنے سے روکتا ہے کہ علوم کی تشکیل اور ان کے پھیلاو کا مقصد کیا ہے ؟ کونسا علم تشکیل دیا جا رہا ہے اور اس کا معاشرے کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ علم کی تشکیل کون کر رہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اسلامی علوم بھی اس سےبے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔ اسلامک اسٹڈیز کےعلوم میں ایسے پہلووضع کیے گئےہیں جو بذات خود نوآبادیاتی اثرات میں بہت گہرے ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہیں ایسے سوالات کی شکل میں تیار کیا گیا ہے کہ تشدد کا سارا بوجھ مسلمانوں پر پڑ جاتا ہے، جس سے اسلام ایک پرتشدد مذہب کے طور پر ظاہر کیا جاتاہے، جس کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہےجبکہ مزید سوالات کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی۔ تعلیمی ادارے بھی انہی استعماری حربوں کی بنیاد پرقائم ہیں۔ یہ اس تعلیمی تربیت اور نوآبادیاتی وراثت کا اثر ہے کہ ہم درست سوالات اٹھانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قوم پرستی پر جس انداز میں تنقید کی ہے اور انسانوں کو نسل پرستی کی طرف دھکیلنے کا نظریہ قرار دیتے ہوئےاسے غیراسلامی اور جمہوریت کے لیے ایک مسئلہ قرار دیا ہے، اس کا جائزہ پیش کرتے ہوئےڈاکٹر حمیرا نے نوآبادیاتی اثرات کے حامل عوامل میں اس کے حل کے لیے پیش کیے گئے اقدامات کے محدود ہونے کی نشاندہی کی۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علم کی ڈی کولونائزنگ ایک بہت مشکل کام ہےکیونکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو ختم ہی کر دیا جائے۔ نوآبادیاتی اثر و رسوخ کو مکمل طور پر مسترد کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم ایسے اداروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن پر اس کے اثر و رسوخ اور نظریات کی گہری چھاپ ہے۔ جہاں تک ممکنہ حل سامنے لانے کا تعلق ہے، وقت کی ضرورت یہ ہے کہ مختلف نقطۂ نظر اور نظریات کو تخلیقی انداز میں یکجا کیا جائے اور اپنے مسائل کو وسیع تر نقطۂ نظر سے سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے نصاب کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات اور طرزِ عمل کی بنیاد پر سوالات کی وضاحت کرنے اور خود جواب تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر حمیرا نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ڈی کولونائزیشن کا مطلب استعمار کے اثر کو ختم کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک اسٹڈیز اور علوم کی ڈی کولونائزیشن کے لیے ہمیں اپنی تاریخ سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کی گئی غلطیوں، ماضی کے تجربات، کمیوں اور مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔صرف اسی صورت میں لوگوں کی ذہنیت کو نوآبادیاتی اثرات سے پاک کیا جا سکے گا۔
ڈاکٹر حمیرا کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے، ڈاکٹر فتح ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کس طرح نوآبادیاتی طاقتوں، بالخصوص انگریزوں نے اسلام کی طاقت کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا۔ انہوں نےتاریخ کی اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح پاکستان کی تخلیق، اسلام کی طاقت، مسلم نظریہ اور متحد مسلمانوں کی طاقت کا ثبوت تھی اور کن کن ہتھکنڈوں کی مدد سے نوآبادیاتی حکمران اس کی تکمیل میں کئی بار رکاوٹ بنے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انگریز اب بھی اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ پاکستان اپنے بانیوں کے نظریے کا حقیقی ادراک نہ کر لے اور اسی لیے انہوں نے علوم کی نوآبادیاتی شکل میں اپنے استعماری اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف طریقے وضع کیے ہیں۔
ڈاکٹر حمیرا احمد نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹڈیز، ایک مضمون کے طور پر، بذات خود استعمار کا ایک منصوبہ ہے اور جس کی ڈی کولونائزیشن کا عمل دو سطحوں پر کرنے کی ضرورت ہے –اسلامک اسٹڈیز کا مضمون اور پھر اس کے اندر کا مواد ۔انہوں نے مدارس اور یونیورسٹی کے طلباء کے درمیان کے فرق کواس علم کی بنیاد پرجانچا جو انہیں مختلف طریقوں سے فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علم کے اختلافات اور مسائل کو مختلف پہلوؤں اور مختلف سطحوں پر دیکھنا چاہیے، یعنی تحقیق، علم و فضل کا ماحول وغیرہ۔ انہوں نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ علم اور یورو سینٹرک نقطۂ نظر کی ڈی کولونائزنگ کایہ کام بہت بڑا ہے اور اس کے لیے قابل اور تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے موجود نہیں ہیں۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز نے پاکستان میں علم کے نوآبادیاتی تصورپر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں برطانوی اداروں اور تھامس میکالے جیسے لوگوں کا اہم کردار تھاجنہوں نے برصغیر میں موجودہ تعلیمی نظام کو متعارف کرایا اوربرصغیر کو استعمار کی طرف سے متعارف کروائے گئے علم اور تعلیمی ڈھانچے کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ انہوں نے ڈی کولونئیال کوششوںکو آگے بڑھانے میں نوجوانوں کے کردار ، مقامی نصاب کی ضرورت اور دیگر مضامین کو بھی ڈی کولونائز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
رحمٰن نے علوم کی ڈی کولونائزیشن کے عملی تقاضوں اور ان پرکام کرنے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت پر روشنی ڈالی جوہمہ پہلو اور کثیرجہتی ہو۔ انہوں نے ڈی کولونائزنگ کی مطلوبہ پیشرفت حاصل کرنے کی کوشش میں زیادہ سے زیادہ مضامین کو شامل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آخر میں، انہوں نے اس مقصد میں حصہ ڈالنے کے لیے آئی پی ایس کے پلٹ فارم کو استعمال کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کاروں، طلباء اور دانشوروں کو اس کے ’انڈیجینائزنگ پالیسی ریسرچ‘ انیشیٹیو میں مدعو کیا جائے گا تاکہ تحقیق کاروں کی ایک کمیونٹی تشکیل دی جا سکے جو کہ ڈی کولونائزیشن کی کوششوں کی میں حصہ ڈال سکے۔
جواب دیں