کسٹ (کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کی رضاکار ٹیم کو پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی آئی پی ایس کی اسٹڈی پر بریفنگ

کسٹ (کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کی رضاکار ٹیم کو پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے موضوع پر ہونے والی آئی پی ایس کی اسٹڈی پر بریفنگ

آئی پی ایس کے ’والنٹیئر پروگرام‘ کے تحت کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کسٹ)، اسلام آباد کے رضاکار طلباء کے لیے ایک بریفنگ سیشن  28 فروری 2022  کومنعقد ہوا۔ آئی پی ایس کے تحقیق کار صوفی غلام حسین نے اس موقع پرپاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے پیچھےچھپے حقائق  پرروشنی ڈالتے ہوئے اس کی حقیقت کو واشگاف کیا۔

 A-Discussion-on-IPS-Baseline-Study

آئی پی ایس کے ’والنٹیئر پروگرام‘ کے تحت کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کسٹ)، اسلام آباد کے رضاکار طلباء کے لیے ایک بریفنگ سیشن  28 فروری 2022  کومنعقد ہوا۔ آئی پی ایس کے تحقیق کار صوفی غلام حسین نے اس موقع پرپاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے پیچھےچھپے حقائق  پرروشنی ڈالتے ہوئے اس کی حقیقت کو واشگاف کیا۔

حسین، جو کہ ’جبری تبدیلی یا عقیدے کی تبدیلی: قصے کہانیاں اور حقیقت‘ کے عنوان سے ہونے والے اس بنیادی مطالعہ کے مصنف ہیں، نے وضاحت کی کہ کس طرح ہر سال 1000  نوجوان لڑکیوں کی جبری تبدیلی کی داستان کو ملک کے اندر اور باہر بنایا اور پھیلایا جا رہا ہے۔

مذہبی تبدیلیوںکی وجوہات، ان کےعوامل اور اس ضمن میں جھوٹی اور غلط اطلاع پر مبنی معلومات کے کردارکی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقرر نے انکشاف کیا کہ مذہب تبدیل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نہ تو کم عمر تھی اور نہ ہی کسی بھی طرح سے مجبور تھی۔ اس کی بجائے، وہ یا تو جبری شادیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے یا اپنی برادری میں موجود گھریلو بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے اسلام قبول کر چکے تھے۔

سپیکر نے بتایا کہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کی رپورٹس میں معروضیت اور سائنسی صداقت کا فقدان تھا۔ انہوں نے کہا کہ جبری مذہبی تبدیلی کی غلط تعریف، عالمی سطح پر اسلامو فوبیا، غلط معلومات اور جبری تبدیلی  کےبیانیے کے پیچھے آزادانہ انتخاب میں پیدا کیا گیاابہام  وہ کلیدی عوامل ہیں جو پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے جھوٹے بیانیے کی  تشکیل اور ترویج کے پیچھے  کارفرما ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان سب کا مقابلہ آگاہی کی ایک مہم کے ساتھ کیا جانا چاہیے تاکہ عوام میں اس مسئلے کی پس پردہ حقیقت کو سمجھنے کے لیے بیداری پیدا ہو۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے