کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

سابق سفیر سید ابرار حسین

دنیا بھر میں کشمیری ہر سال ۲۷ اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ کشمیری تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب ۷۷ سال پہلے بھارتی افواج ناجائز طور پر کشمیر پر قابض ہوئیں اور کشمیری عوام کی امنگوں کا گلا گھونٹ کر انہیں اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے سے روک دیا گیا۔ تب سے اپنے بار باراقوام عالم اور کشمیریوں سے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت استصواب رائے سے گریز کر رہا ہے اور کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو استصواب رائے کا متبادل قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔

کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے لیے بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی روگردانی کررہا ہے اور کشمیری عوام کو ظلم و جبر کے ذریعے دبانے کے لیے برسوں سے وہاںمسلسل انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ جب بھارتی ظلم و جبر دلیر کشمیری عوام کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا توکشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ بنایا گیا اور ۵ اگست ۲۰۱۹ کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے آئین کا آرٹیکل ۳۷۰ ختم کردیا گیا۔ اس کے بعد جموں میں رہنے والے ہندو مہاجرین کو ووٹ کا حق مل گیا ، لاکھوں غیرکشمیریوں کو ڈومیسائل دیے گئے اور باہر والوں کو ریاست میں جائیدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔ نئی حلقہ بندیاں بھی کی گئیں اور ہرطرح سے کوشش کی گئی کہ کشمیری اپنی ہی ریاست میں اقلیت بن جائیں۔

عوامی رد عمل کے خوف سے بھارتی حکومت نے کشمیر اسمبلی کے انتخابات بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیے تھے مگر پانچ سال بعد بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر بالآخر بھارتی حکومت یہ انتخابات کروانے پر مجبور ہوئی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے یہ انتخابات ۱۸ستمبر سے یکم اکتوبر تک تین مرحلوں میں ہوئے جن کے نتائج کا اعلان ۸ اکتوبر کو ہوا۔یہ انتخابات کئی لحاظ سے اہم تھے۔ یہ الیکشن دس سال بعد ہوئے تھے اور ۲۰۱۹ میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے۔

پاکستان نے ان انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ حق خود ارادیت کے لیے استصواب رائے کا بدل نہیں ہوسکتے۔نتائج کے مطابق اسمبلی کی ۹۰ نشستوں میں سے جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے ۴۲سیٹیں حاصل کیں جبکہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی صرف ۲۹ سیٹیں حاصل کر سکی۔ دوسری پارٹیوں میں انڈین نیشنل کانگریس ۶، جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۳ ، جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک کانفرنس ۱ اور عام آدمی پارٹی ۱ جبکہ سات نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں۔

جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعتوں سمیت کل ۴۹ نشستیں بنیں جو کہ واضح اکثریت تھی چنانچہ ان کے نامزد کردہ عمر عبداللہ ۱۶ اکتوبر کو ایک دفعہ پھرمقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس سے پہلے وہ ۲۰۰۹ میں بھی وزیر اعلیٰ بنے تھے ۔ مگر ۲۰۱۴ کے انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی مخلوط حکومت میں مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ تھے اور ۲۰۱۶  میں ان کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ بنیں۔ جون ۲۰۱۸ میں بی جے پی مخلوط حکومت سے نکل گئی اور گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ پانچ ماہ بعد نومبر ۲۰۱۸  میں ریاستی اسمبلی توڑ دی گئی۔ لگ بھگ آٹھ مہینے بعد ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کے حصے بخرے کرکے اسے بھارتی یونین میں شامل کردیا گیا۔

عمر عبداللہ کی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے جیتنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ جیتنے کے بعد وہ آرٹیکل ۳۷۰ کو بحال کروائیں گے۔ اس لیے ان انتخابات میں ایک واضح تفریق یہ بھی نظر آئی کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں نیشنل کانفرنس جبکہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سب نشستیں جموں سے جیتی ہیں اور کشمیر سے اس پارٹی کو ایک سیٹ بھی نہ مل سکی۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے نتائج سے مودی حکومت کے اقدامات کے خلاف عدم اطمینان اور غصے کا اظہار ہوتا ہے۔حکومت میں آنے کے ایک ہفتے بعد ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۴کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی کابینہ نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کو بحال کیا جائے۔ قرارداد میں جموں و کشمیر کی مکمل ریاستی حیثیت کی بحالی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ایک ایسے سیاسی فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جو ریاستی عوام کی خواہشوں سے ہم آہنگ ہو۔ البتہ عمر عبداللہ کے سیاسی مخالفین نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ قرارداد میں آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں جس کی بنیاد پر عمر عبداللہ نے ووٹ لیے تھے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جو کشمیری رہنما آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے خلاف تھے اب انہی کو حکومت میں لاکر یہ تاثر دیا جائے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے باوجود سب کچھ ٹھیک ہے۔ دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ میں جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔ پچھلے سال بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل ۳۷۰ ختم کرنے کے حکومتی اقدام کو صحیح قرار دیا تھا مگر ساتھ ہی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے اور ۳۰ ستمبر تک انتخابات کروانے کا بھی کہا تھا۔

اب اس درخواست پر فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرکے ہی کشمیری عوام کی امنگوں کو پورا کیا جاسکتا ہے اور جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، خطے میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے