‘کوویڈ-۱۹: عالمگیر خطرے کے روشن پہلو کی طرف ایک نظر’

‘کوویڈ-۱۹: عالمگیر خطرے کے روشن پہلو کی طرف ایک نظر’

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی مرض نے مختلف شعبوں میں نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔

 mirza-hamid-hasan

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی مرض نے مختلف شعبوں میں نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔

دنیا بڑے پیمانے پر قدرتی بحران کی لپیٹ میں ہے جس کی شدت سے نپٹنا انتہائی مشکل ہوا پڑا ہے۔ تاہم کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی مرض نے مختلف شعبوں میں مواقع بھی پیدا کردیے ہیں جن پر اگر دانشمندی سے کام کیا گیا تو قلیل اور طویل مدتی دونوں پہلووں سے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

ان خیالاتت کا اظہار ‘کوویڈ-۱۹: عالمگیر خطرے کے روشن پہلو کی طرف  ایک نظر’ کے عنوان سے ہونے والے ایک ویبینار میں کیا گیا  جسے آئی پی ایس نے۲۷ اپریل ۲۰۲۰ء کو اپنی ویبینار سیریز ‘کوویڈ- ۱۹: عالمی چیلنج ، قومی رد عمل ‘کے  ایک حصے کے طور پر ترتیب دیا تھا۔

اس نشست سے سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے مرکزی اسپیکر کی حیثیت سے خطاب کیا ۔ صدارت کے فرائض ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمن نے ادا کیے جبکہ سینئر آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی  ایٹ ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف بھی اس پروگرام میں شریک ہوئے۔

اجلاس سے سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے مرکزی اسپیکر کی حیثیت سے خطاب کیا۔ اس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمان نے کی جبکہ سینئر آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی ایٹ ایمبیسیڈر (ر)  تجمل الطاف  بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

حسن کا خیال تھا کہ کوویڈ-۱۹ نے ذاتی حفاظتی سازوسامان، چہرے کے ماسک اور ہاتھ صاف کرنے والے سامان جیسی کرونا وائرس سے متعلقہ مصنوعات کی صنعتوں میں روزگار کے کچھ مواقع پیدا کیے ہیں۔ اس میں وینٹیلیٹرز جیسے طبی آلات بھی شامل ہیں جو ابھی تیاری کےابتدائی مرحلے میں ہیں ۔ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو بھی مراعات دی ہیں جو  روزگار فراہم کرنے میں معاون ہوں گی۔

اسپیکر نے ایک طرف عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی گرتی ہوئی قیمتوں اور دوسری طرف  لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریبا صارفین کے تمام بڑے شعبوں میں ان کی طلب میں خاطر خواہ کمی کے نتیجے میں ہونے والے فوائد پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پٹرولیم  کی درآمدات میں ۳۷ فی صد سے زیادہ  کمی ہوچکی ہے جوفروری میں۱۷۰ بلین روپے سے کم ہو کر مارچ میں ۱۰۶ ارب روپے رہ گئی ہیں۔

اس کے نتیجے میں ملک کے درآمدی بل میں کمی واقع ہوئی ہے  اور زرمبادلہ کے ذخائر پر اسی تناسب سے دباو کم ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچائے گئے فنڈز کو وبائی امراض پر قابو پانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

حسن کا خیال تھا  کہ کوویڈ-۱۹ کے بعد یہ ظاہر ہواہے کہ جہاز رانی اور رسد کے مسائل توانائی کی سپلائی لائنوں کے لیے کافی خطرہ ہیں۔ اس سے تیل ، گیس اور قابل تجدید توانائی کے نئے وسائل تیار کرنے میں ایک محرک عنصر کا کام لیا جانا  چاہیے۔ اگر حکومت توانائی میں بچت کرنے والی صنعتوں کے لیے پالیسیاں مرتب کرنا شروع کردے تو طویل مدتی فوائد ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ طویل عرصے سے لاک ڈاؤن اور صنعت و ٹرانسپورٹ کی بندش نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو پوری دنیا میں کم کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں ماحولیات اور ممکنہ طور پر عالمی درجہ حرارت میں نمایاں بہتری واقع ہوئی ہے۔ اس بہتری سے تخفیف اور موافقت کے اقدامات پر ہونے والے اخراجات براہ راست کم ہو جائیں گے جس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی انحطاط کی شدت کو کم کرنے کے لیے درکار فنڈز بھی مل سکیں گے۔

حسن نے نشاندہی کی کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نجی  تعلیمی اداروں نے اپنی تدریسی خدمات آن لائن منتقل کردی ہیں جبکہ حکومت نے بھی سرکاری اداروں کی تدریسی سرگرمیوں کے لیے ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی متعدد وجوہات کی بناء پر طویل مدتی اور شاید مستقل ہوگی جس میں لاگت میں کمی، وقت کی بچت، لچک اور اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے سہولتیں شامل ہیں۔ اس سےبہت سارے  طلبہ کے لیے معیاری تعلیم قابل برداشت ہو جائے گی کیونکہ بڑے ادارے بھاری بالائی اخراجات کم کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

اسپیکر نے مزید کہا کہ آن لائن کلاسوں کے باعث والدین کا کنٹرول اور نگرانی زیادہ ہو گی جس کے نتیجے میں طلباء کی بہتر تربیت اور کردار سازی ممکن ہو سکے گی۔

صحت سے متعلق امور پر بات کرتے ہوئے حسن نے کہا کہ زیادہ تر بیماریاں جیسے ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماری ، ذیابیطس اور مختلف نفسیاتی مسائل بڑی حد تک ہر وقت کی بھاگ دوڑ ، غیر صحت بخش طرز زندگی اور زیادہ کام کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ کا نتیجہ ہیں۔ کوویڈ-۱۹ گھر سے کام کرنے اور لچکدار اوقات کار کو فروغ دینے کے ذریعے کام کے نظام میں بڑی تبدیلی لائے گا۔ اس سے کنبے، دوستوں اور تفریحی سرگرمیوں کے لیے بھی زیادہ وقت ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ملازمین اور آجر دونوں کی صحت بہتر ہوگی اور ٹیلی میڈیسن کو مزید فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ  طویل عرصے سے لاک ڈاؤن کے ادوار میں اہل خانہ کے ساتھ اکٹھا ہونا خاندان کے ساتھ بندھن کو از سر نو تقویت دے گا اور معاشرتی آداب  اور خاطر داری  کو بحال کرے گا۔

حامد کی رائے تھی کہ انسانیت کا ایک بہت بڑا حصہ روحانیت اور مذہب سے دور ہوچکا ہے ، جس نے معاشرے میں بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کوسمیٹتے ہوئے کہا  کہ کوویڈ- ۱۹ کے باعث سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں میں بھی بڑے پیمانے پر روحانی بحالی دیکھنے میں آئی ہے۔

رحمن نے کہا کہ معاشرے میں کچھ مثبت تبدیلیاں وبائی مرض کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے لاک ڈاؤن اقدامات کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں۔ تاہم جو  کچھ  مثبت انداز میں بدل گیا ہے – جیسے طرز زندگی، اخراجات میں توازن اور دوسروں کے لیےاس میں حصہ- عارضی نوعیت کے نہیں ہونے چاہییں، انہیں دیرپا بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کو نہ صرف وباء کے دوران بحران سے نبٹنے کے انتظام میں مشغول رہنا چاہیے بلکہ اسے ان مقامات کی  بھی نشاندہی کرنی چاہیے جہاں تبدیلی کی حقیقی ضرورت ہے۔

رحمان نے تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور تربیت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے جبکہ آن لائن تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحان سے بچوں کو باضابطہ تعلیم کے حصول کے دوران گھر پر ہی تربیت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں نے پہلے ہی دوسرے ممالک سے آنے والے طلبا کو مدعو کرنا اور ان سے وابستہ ہونا شروع کردیا ہے جس کے باعث ہمارے بچوں پر ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ  ایک خطرہ ہے۔ تاہم  اس کے ساتھ ہی یہ صورتحال بھی ہمیں موقع فراہم کرتی ہے کہ تعلیم، تہذیبوں کے فرق ، اور ایمان جیسے معاملات پر اپنے نقطہ نظر کو دنیا کے سامنے واضح اور پرسکون انداز میں بیان کریں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے