گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ قوم کی قوت برداشت کا امتحان بن چکا ہے: ماہرین
پاکستان کا پاور سیکٹر گردشی قرضوں کے سنگین مسائل کی وجہ سے بری طرح ناکارہ ہو چکا ہے، جس کی عکاسی بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے ہوتی ہے۔ وزارت توانائی کی درخواست پر نہ صرف نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے زیادہ بجلی استعمال کرنے والےصارفین کے لیے 11 روپے فی یونٹ ٹیرف میں اضافے کی منظوری دی ہے، بلکہ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر ”فلیٹ سلیب ریٹ“ کا طریقہ کارنافذ کر کے بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
یہ بات 21 جولائی 2022 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران ہوئی جس میں پاکستان کے پاور سیکٹر کے نقصانات، گردشی قرضوں کے اثرات، حل کے طریقہ کار اور مسائل سے نمٹنے کے لیے روڈ میپ کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور آئی پی ایس کی انرجی سٹیئرنگ کمیٹی کے سربراہ اور سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے کی۔ اشفاق محمود، سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی؛ امینہ سہیل، ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز، آئیسکو اور نیپرا کی قانونی مشیر ؛سید اختر علی، توانائی کے امور کےماہر؛ راجہ کامران، صدر کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس؛ نوفل شاہ رخ، آئی پی ایس کے جنرل مینیجر آپریشنز اور آئی پی ایس میں توانائی کے تحقیق کار حمزہ نعیم اور لبنیٰ ریاض نے بھی اجلاس میں شرکت کی تاکہ ملک میں بجلی کی صورتحال اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
بات چیت میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میںاشاریے یہ بتاتے ہیں کہ یہاں بجلی استعمال کرنے کی استطاعت سب سے کم ہے، جس کے مجموعی اقتصادی ترقی پر ممکنہ طور پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر، فرنس آئل، آر ایل این جی اور آر ایف او سے توانائی کی پیداوار کے لیے اختیار کی گئی سہولیات سے کئی دہائیوں میں مہنگے حیاتیاتی ایندھن پر رجحان بڑھتا گیا ہےجس کی وجہ سے پاور سیکٹر میں ادائیگیوں کا مالیاتی خسارہ تیزی سے بڑھتے ہوئےسنگین ہوتا چلا گیاہے۔توانائی کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے کاموں کو جاری رکھنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ، جبکہ قلیل مدت میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا البتہ اس سے صارفین کی توانائی استعمال کرنےکی استظاعت متاثر ہوجائےگی۔
مقررین نے گردشی قرضہ کو توانائی کے شعبے کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ملک میں توانائی کے تحفظ اوراس کے استعمال کی استطاعت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایک قابل غور حقیقت ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداواری لاگت گزشتہ سال جون سے 160 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور حکومت اب صارفین کو سبسڈی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
میٹنگ میں گردشی قرضے کے مسلسل اضافے کا سبب بننے والے جن عوامل کی نشاندہی کی گئی ان میں ادائیگیوں میں تیزرفتار اضافہ، طرز حکمرانی کے مسائل، ڈسٹری بیوشن یوٹیلیٹیز میں نااہلیت اور بین الاقوامی منڈی میں حیاتیاتی ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ شامل تھے۔مقررین نے یہ بھی کہا کہ صارفین پر قرض کابے انتہا بوجھ منتقل کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں ہونے والے قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کہا گیا کہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے محفوظ سلیب سسٹم میں بھی ترمیم کر کے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کم آمدنی والے طبقے پر بھاری بوجھ پڑے گا۔ جبکہ، دوسری طرف بجلی کے بلوں کے ذریعے اضافی ایڈوانس ٹیکس کی وصولی بھی ایک ناروا طریقہ ہے جو توانائی کے استعمال میں استطاعت کی کمی کےسبب بڑے مسائل کا باعث بنے گا۔
نئے ٹیرف میں اضافے کے بعد صورت حال یہ ہوگی کہ 200-100 یونٹ استعمال کرنے والوں پر لاگو کیا گیا بنیادی ٹیرف 18.95 روپے ہو گا، جب کہ 300-201 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے 22.14 روپے، اور 400-301 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے یہ شرح بڑھا کر 25.53 روپے کر دی گئی ہے جو پہلے بالترتیب 11.74 روپے، 13.81 روپے اور 21.23 روپے تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے تحت فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ بھی صارفین سے وصول کی جائے گی۔
گردشی قرضوں کی تعداد اس وقت 4700 بلین روپےہے، اور مقررین کا کہنا تھا کہ ”حصول یا ادائیگی“ کے طریقہ کار پر کیے گئے معاہدے ان قرضوں میں مسلسل اضافےکے ذریعے انبار بننے کا سبب ہیں۔ دریں اثنا، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااہلی اور گورننس کے مسائل بھی اس میں اضافے کا سبب بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سےقرض پرذمہ داری پوری کرنے کے لیے بری طرح سے متاثرہ پاور سیکٹر کی کراس سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ جبکہ ان اضافوں کی وجہ سے معاشرے کے وسائل سے مالا مال شعبوں ،بشمول تجارتی اور صنعتی صارفین، میں کیپٹیو پاور جنریشن سہولیات کی طرف منتقل ہونے کا رجحان ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو صارفین سے استعدادی ادائیگیاں وصول کرنے کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔
مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی انتظامی تنظیم نو، قابل تجدید ذرائع کی طرف توانائی کی منتقلی، پیداواری سہولیات میں مسابقتی بولی، تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ، اور ڈسکوزکو چھوٹے یونٹوں میں تقسیم کرنے کے لیے مداخلت کرناملک کے پاور سیکٹر کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
جواب دیں