یورپ میں اسلامو فوبیا
یورپ میں اسلامو فوبک پاپولزم میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
جون 2024 کے یوروپی پارلیمنٹ کے انتخابات قریب آتے ہی پورے یورپ کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں تبدیلیاں آ رہی ہیں، جس کی اشارہ دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیوں کے عروج سے ملتا ہے۔ یہ پاپولسٹ پارٹیاں پورے براعظم میں مسلم مخالف جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ جماعتیں، جو لبرل جمہوریت اور امیگریشن کی مخالفت میں متحد ہیں، یورپی سیاست میں بااثر ہوتی جا رہی ہیں۔
آئی پی ایس کی الیومنائی مریم خان, جنہوں نے ترکی میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے حصے کے طور پر ‘یورپ میں اسلامو فوبیا’ کا مطالعہ کیا، نے 17 مئی 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ ایک سیشن کے دوران اپنے تحقیقی نتائج پیش کیے۔ ان کی تحقیق یورپی معاشروں میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ پر روشنی ڈالتی ہے۔
یورپ میں اسلامو فوبیا کو فروغ دینے میں پاپولزم کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر پاپولزم کو ہمیشہ منفی طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ البتہ، آج کے یورپ میں پاپولزم نے ایک تاریک موڑ لے لیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق یورپی پاپولزم میں آج فاشسٹ نظریہ گہرائی تک سرایت کر چکا ہے، جوکہ ایک بنیاد پرست دائیں بازو بیانیے پر مبنی ہے۔ پاپولزم کی یہ شکل ہائپر نیشنلزم اور قومیت پر پروان چڑھتی ہے اور ‘ہم بمقابلہ ان’ کے اختلاف کو فروغ دینی ہے۔ اس بیانیہ میں، ‘ہم’ مقامی شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ ‘وہ’ کسی بھی اقلیت یا بیرونی خطرہ سمجھے جانے والے کا حوالہ دے سکتا ہے، جیسے کہ ہندوستان میں مسلمان۔
مریم نے مزید کہا کہ 1980 سے 2014 تک یورپ میں دائیں بازو کی بنیاد پرست جماعتیں نسبتاً غیر فعال تھیں۔ تاہم، حالیہ برسوں نے ان کی بحالی کو دیکھا ہے. ان یورپی پارٹیوں، بشمول یورپی پیپلز پارٹی، سوشل ڈیموکریٹس، اور یورپی گرینز، کو اب ایک چوتھے گروپ کی طرف سے چیلنج کیا جا رہا ہے جو زینو فوبک اور اسلامو فوبک بیان بازی کو فروغ دیتا ہے۔
یہ پاپولسٹ پارٹیاں سخت امیگریشن کنٹرول کی وکالت کرتی ہیں اور یورپی یونین کے گہرے اور وسیع ہونے کی مخالفت کرتی ہیں۔ وہ بریگزٹ جیسی تحریکوں کی حمایت کرتی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تارکینِ وطن کی آمد کو ایک ‘تارکین وطن کے بحران’ کے طور پر دیکھتی ہیں، اور اکثر تاریخی نعرے ‘مسلمان آرہے ہیں’ جیسے اشتعال انگیز الفاظ استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یورپ میں ان پاپولسٹ پارٹیوں کی بڑھتی ہوئی قبولیت اہم خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کی سیاسی حکمت عملی کی جڑیں مخالفت میں بسی ہیں، جو اکثر امیگریشن اور سیاسی پناہ کی پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پناہ کے سخت قوانین اور تارکین وطن کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ جماعتیں یورپی یونین مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یونین کو یورپی کول اینڈ اسٹیل کمیونٹی جیسی چھوٹی یونینوں میں واپس جانا چاہیے۔ یورپی یونین اپنی موجودہ شکل میں ان پاپولسٹ جماعتوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
مریم نے روشنی ڈالی کہ آئندہ انتخابات انتہائی اہم ہیں۔ اگر دائیں بازو کی پاپولسٹ جماعتیں یورپی پارلیمنٹ کے اندر ایک بڑا بلاک بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ پارلیمان میں دوسرا سب سے بڑا گروپ بن سکتی ہیں۔ اس سے وہ اپنے کمیشنوں کو نامزد کرنے اور ممکنہ طور پر اہم فیصلوں کو ویٹو کرنے کے قابل ہو جائیں گی، جس سےیورپی یونین کی پالیسیوں کو تبدیل کیا جا سکے گا۔
جیسا کہ یورپ 2024 کے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، اسلامو فوبک پاپولزم کا عروج ایک مرکزی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان انتخابات کے نتائج یورپی یونین کی مستقبل کی سمت اور اس کے تنوع اور شمولیت کے عزم پر نمایاں اثر ڈالیں گے۔
مریم نے ترکی کی موجودہ صورتحال، ریاستی اور سماجی سطح پر درپیش چیلنجز اور ابھرتے ہوئے منظرناموں کے بارے میں بھی اپنی بصیرت کا اشتراک کیا۔
جواب دیں