‘آئینِ پاکستان کے پچاس سال – آئندہ پچاس سالوں کے لیے حاصل ہونے والے سبق’
ماہرین کا وفاقی ہم آہنگی اور استحکام کے لیے مالیاتی تقسیم، مشترکہ مفادات کونسل اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے، اور این ایف سی ایوارڈ کے کردار کو بہتر بنانے پر زور
تمام وفاقی اکائیوں اور آئینی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان 18ویں ترمیم کے بعد کے منظر نامے میں ہم آہنگی پیدا کرنا ، جس میں اختلافات کے باعث متعدد گورننس چیلنجز پیدا ہوئے ہیں، جمہوری تسلسل کے لیے بروقت انتخابات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ آئینِ پاکستان کے تحفظ اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے ناگزیر ہے ، اور ملک کے مستحکم اور خوشحال مستقبل کے لیے ضروری ہے۔
مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ ، اور بااختیارمقامی حکومتوں کے زریعے سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منصفانہ تقسیم پاکستان کی وفاقیت، آئین کے تحفظ اور مستقبل کے لیے نا گزیر ہے۔
مضبوط ،پیشہ ورانہ فوج کی ضرورت، اور سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کے درمیان موجود مخمصے کا واحد حل سول- ملٹری مکالمہ ہے۔ اس مقصد کے لیے بہترین فورم قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) ہے، جسے باقاعدہ بات چیت اور مشاورت کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، فوجی اور سول اسٹیک ہولڈرز دونوں کو طاقت اور اقتدار کی حرکیات سے ہٹ کر آئین کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ایک اور درپیش مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ریاست کی حیثیت سے آج تک خود کو ایک فلاحی ریاست یا سیکیورٹی اسٹیٹ کیے درمیان پاتا ہے۔ دونوں حیثیتوں کے درمیان توازن قائم کرنا ایک مضبوط جمہوری فریم ورک کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے جس میں فوج کا کردار سویلین حکمرانی کے ماتحت ہو۔
سینیئر سیاستدانوں، قانون ، ریاستی اور آئینی امور کے ماہرین اور محققین نے 18-19 اکتوبر 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد اور فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی، راولپنڈی کے شعبہِ قانون کے زیر اہتمام ‘پاکستان کے آئین کے پچاس سال: اگلے 50 سالوں کے لیےحاصل ہونے والے اسباق’ کے موضوع پر ہونے والی دو روزہ بین القوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس کے پیلے دن دیگر مقررین کے علاوہ جسٹس جواد حسن، جج لاہور ہائی کورٹ، خالد رحمٰن، چیئرمین آئی پی ایس ، محمد اکرم شیخ، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان ، حامد خان، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان ، ہارون الرشید، وائس چیئرمین، پاکستان بار کونسل، احمر بلال صوفی، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور سابق وفاقی وزیر قانون، رفعت انعام بٹ، سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان ، جسٹس ڈاکٹر سیّد محمد انور، وفاقی شریعت کورٹ ، ڈاکٹر تمارا سون، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی ، بیرسٹر ظفر اللہ خان، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان اور سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم ، سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس اور پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ایڈوائزر ریسرچ، آئی پی ایس اور سابق ڈی جی، پاکستان سٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی، نے خطاب کیا۔
کانفرنس کے دوسرے دن خطاب کرنے والے اہم مقررین میں سینیئر سیاستدان راجہ ظفر الحق، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق گورنر بلوچستان اور خیبر پختونخوا اویس احمد غنی ، بلوچستان کے عبوری وزیر قانون امان اللہ کنرانی ، سابق وائس چانسلر، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ حامد ، ڈین، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شعیب اختر ، سابق وفاقی سیکرٹری، بین الصوبائی رابطہ کی وزارت کے سابق وفاقی سیکرٹری آفتاب احمدمیمن ، سابق وزیر برائے لوکل گورنمنٹ، خیبر پختونخوا عنایت اللہ خان، سابق وفاقی وزیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی ، پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب ، اسکول آف لاء، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن، سربراہ، شعبہ قانون، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی ڈاکٹر نادیہ خادم، ایڈوائزر ریسرچ آئی پی ایس اور سابق ڈی جی، پاکستان اسٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام شامل تھے۔
جسٹس جواد حسن نے افتتاحی اجلاس کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر میں ریمارکس دیے کہ پاکستان کا آئین دنیا کے بہترین آئینوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی مضبوطی کی جڑیں عوام کی امنگوں اور ان کو با اختیار بنانے میں موجود ہیں، اور آرٹیکل 4 – ‘قانون کا تحفظ’ ایک فرد کے حق کے طور پر، آرٹیکل 5 – آئین کی اطاعت بطور ‘ہر شہری کی لازمی ذمہ داری’، اور آرٹیکل 189 – سپریم کورٹ کے فیصلوں کی دیگر عدالتوں پر پابندی، جیسے آرٹیکلزکے طور پر درج ہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ انصاف اور جمہوریت کے محافظ کے طور پر 1973 کا آئین قوم کی ضروریات کے مطابق ارتقا اور موافقت جاری رکھتا ہے، اور عدلیہ کے کردار کے ذریعے اپنے لوگوں کو بااختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بناتا ہے۔
خالد رحمٰن نے لوگوں کو با اختیار بنانے کے بارے میں حکمرانی کی ایک شرط کے طور پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ بااختیار بنانے کی جدوجہد اشرافیہ کے خلاف ہونی چاہیے اور اس کے لیے تعلیم اور سیاسی شعور کا قومی زندگی میں سرایت کرنا ضروری ہے۔
احمر بلال نے اپنی کلیدی تقریر میں کہا کہ پاکستان کا آئین ایک متوازن ادارے کے طور پر کام کرتا ہے جس نے چاروں صوبائی اکائیوں اور ملک کے دیگر تمام متنوع گروہوں اور خطوں کو متحد کیا ہے۔ رضاکارانہ پیروی کے ساتھ یہ اتفاق رائے ایک بڑی کامیابی ہے۔
تاہم 18ویں ترمیم کے بعد نئے چیلنجز سامنے آئے، جس نے اس کے نفاذ کے لیے مزید توجہ کے ساتھ ایک جامع اندازِ فکر کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے اور آئین کی مسلسل سالمیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے انہوں نے زور دیا کہ 18ویں ترمیم کے مؤثر نفاذ کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
افتتاحی تقریب کے بعد تین اہم موضوعات: ‘آئین اور قومی یکجہتی’، ‘جمہوریت اور عوامی نمائندگی’ اور ‘آئین کو فعال بنانا: ایگزیکٹو کا کردار’ پر تین سیشن منعقد کیے گئے، جن میں آٹھ سے زائد قومی اور تین بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے کثیر الضابطہ محققین نے آئین سے متعلق مختلف تحقیقی موضوعات پر 25 مقالے پیش کیے۔
سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سینئر اسٹیٹس مین اور آئینی اور قانونی ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی پالیسیوں اور قواعد کے ذریعے بنیادی حقوق کا تحفظ اور فائدہ فراہم کرنا قومی یکجہتی کی ضمانت ہے۔ تاہم، قانون کے فراہم کردہ اس تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار کے قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ قومی یکجہتی میں سماجی شمولیت ، اور بنیادی حقوق اور پالیسیوں کے اصولوں کی روشنی میں فیصلوں کے سماجی مضمرات پر غور کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔
مزید برآں، آئین پر موثر عمل درآمد، انضمام، اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی اداروں اور انتظامی حکام کا آئین میں تفویض کردہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ضروری ہے۔
مقررین نے بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے آئین کی اہمیت پر بھی زور دیا کیونکہ یہ ٹریٹیز ، معاہدوں اور خارجہ پالیسی کے لیے پالیسی رہنما اصول اور سمت متعین کرتا ہے، جو کہ آج کی انتہائی پولرائزڈ دنیا میں خصوصی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔
دوسرے دن کے مقررین نے آئین کے بارے میں آگاہی اوربامعنی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے متعلق گفتگو کی۔
انہوں نے اس امر پر زور دیا گیا کہ چونکہ 1973 کا آئین فطری طور پر وفاقیت کو مقدم رکھتا ہے، جس کا مقصد صوبائی اور اقلیتی حقوق کا تحفظ اور منصفانہ سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے، اس لیے یہ اتحاد پاکستان کی بقا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی فعالیت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں، جس کا مقصد صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، لیکن اس کا سیکرٹریٹ تمام عملی مقاصد کے لیے غیر فعال ہے۔
امان اللہ کنرانی نے مزید کہا کہ یہ معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے کیونکہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی مشترکہ مفادات کونسل کے لیے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔
مقررین نے کہا کہ یہ غیر فعالی وفاق کی روح کو متاثر کر رہی ہے اور صوبوں میں عدم اطمینان کو ہوا دے رہی ہے کیونکہ ان کے حقوق کو برقرار نہیں رکھا جا رہا۔
مزید برآں، قومی مالیاتی کمیشن صوبوں کے لیے اپنے ایوارڈز نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 2010 کے بعد میں آنے والے این ایف سی اتفاق رائے تک پہنچنے اور اپنے مقررہ وقت کے اندر ایوارڈز کو نافذ کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے ، جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ مقررین نے زور دیا کہ مستقل مزاجی کے ساتھ این ایف سی ایوارڈز کو چلانے کے لیے ماتحت قانون سازی کی ضرورت ہے۔
آفتاب میمن نے کہا کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات میں خرابی ، خاص طور پراٹھارویں ترمیم نے ملک کے لیے مالیاتی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے اٹھارویں ترمیم اور عدلیہ کی انتظامیہ سے علاحدگی جیسے اہم فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ناگزیر ہے۔
ماہرین نے کہا کہ ایک بنیادی مسئلہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کا منظرنامہ ہے، جس میں مرکز اور صوبےمنتقل شدہ محکموں کی تنظیم نو کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وفاقی مالیاتی قوت میں کمی واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو اٹھارویں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کے لیے بنیاد تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ ملک کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
مقررین نے تجویز پیش کی کہ فنڈز کی فراہمی کے لیے این ایف سی اور صوبوں کے درمیان کوآرڈنیشن ایک حقیقت پسندانہ متبادل ہو سکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کی وفاق کے ساتھ صوبائی تفاوتوں کا حل ترمیم کے آرٹیکل 140(اے) میں ہے، یعنی سیاسی، مالیاتی اور انتظامی حکام کو مقامی حکومتوں کے حوالے کرنا۔
مقررین نے کہا کہ اس کے علاوہ آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے ایک باب شامل کیا جائے تاکہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ نہ بن سکیں جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کے لیے مقامی حکومتوں کے اختیارات اور باقاعدگی سے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے گا۔
"سیاسی نظام کی ناکامی کا مطلب آئین کی ناکامی ہے”، یہ بات اویس غنی نے قومی سیاسی نظام کی غلط حرکیات کو اجاگر کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی نظام اور قومی پالیسیاں اس بات کو مدنظر رکھ کر بنائی جائیں کہ پاکستان ایک فطری ریاست ہے۔
خالد رحمٰن نے بھی انتخابی نظام میں اصلاحات اور متناسب نمائندگی کے نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ انہوں نے بلدیاتی اداروں کی حقیقی شکل میں بحالی پر بھی زور دیا کیونکہ یہ مستقبل کے سیاستدانوں کو تیار کرنے کے لیے نرسری کا کام کرتے ہیں۔
دوسری جانب راجہ ظفر الحق نے مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا تاکہ آئین عوام کے لیے امید کی کرن بنا رہے۔
کانفرنس کے دوسرے روز ‘جمہوری پاکستان میں سول ملٹری ریلیشنز’ کے عنوان سے ہونےوالی ایک نسشت سے خطاب کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ "سول ملٹری تعلقات پاکستان کے مستقبل کے جمہوری فریم ورک کا سب سے اہم پہلو ہیں۔”
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "روایتی سول ملٹری تعلقات پائیدار نہیں ہیں” کیونکہ "معیشت، سیاست اور معاشرے میں موجود مسائل کو گورننس کے نام نہاد ہائبرڈ ماڈل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔” انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے لیے خود کو موجودہ چیلنجز کے مطابق ڈھالنا اور سول ملٹری تعلقات کے لیے ایک نیا، زیادہ متحرک انداز اپنانا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ صحت مند اور تعمیری سول ملٹری ڈائیلاگ ہے، جس کے لیے ایک فعال قومی سلامتی کمیٹی ایک بہترین فورم فراہم کرسکتی ہے ، باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتی ہے، اور مستقبل میں پاکستان کی سول ملٹری تعلقات کے لیے ایک راستہ طے کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔.
لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں ہونے والی بحث فوج اور سویلین قوتوں کے درمیان طاقت کی حرکیات کے کردار پر بہت زیادہ مرکوز ہے، جبکہ سول ملٹری تعلقات کے حصے کے طور پر سِول سے سِول تعلقات میں مسائل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے سول ملٹری تعلقات کے مکالمے کے دائرہ کار کو وسیع کر کے اس میں سول- سول تعلقات کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جو کہ انتظامیہ-عدلیہ اور وفاق-صوبوں-مقامی حکومتوںکی مابین اختیارات اور وسائل کی جنگ کے پیش نظر موئثر طرز حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مزید برآں، انہوں نے سیاست دانوں کا حوالہ دیا جو اقتدار کے حصول کے لیے فوج کا کاندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سویلین اداروں اور کرداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ سول اداروں میں تعاون اور پیشہ ورانہ مہارت کی سطح بھی جمہوری ترقی کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔
اس تاثر کے بارے میں کہ فوج ملک کے قومی مفاد کا تعین کرتی ہے، لودھی نے کہا کہ یہ ریاستوں کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ قومی مفاد عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ اس لیےجب تک کہ یہ مقصد پورا ہوتا رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔
اس حساب سے فوج ریاست کی ‘طاقت’ ہے اور شہری اس کا ‘دماغ’ ہیں، لہٰذا، دونوں کو قومی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں”عوام کی فلاح اور بہبود دونوں کا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے”، تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو ریاستی امور ادا کرنے کے لیےاپنی صلاحیتوں کو بہتربھی کرنا چاہیے۔
کانفرنس میں مجموعی طور پر چھ اہم موضوعات پر آٹھ سیشنز شامل تھے جن میں آٹھ قومی اور تین بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے محققین نے آئینی امور سے متعلق مختلف تحقیقی موضوعات پر 25 مقالے پیش کیے۔
جواب دیں