آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کا اجلاس ، جاری بحران پر تبادلہ خیال
سول سوسائٹی کی قیادت میں ملک گیر تحریک، انتخابی اصلاحات، گورننس ایمرجنسی کی ضرورت پر زور
پاکستان بھر سے مختلف طبقات ، علاقوں اور شعبہ ہائے زندگی کی نمائندگی کرنے والی نامور شخصیات ،دانشوروں، ٹیکنو کریٹس، مذہبی رہنماوں اور جامعات کے وائس چانسلروں ، آئینی و قانونی ماہرین، سابق وفاقی سیکرٹریز، سفراء ، فوجی افسران اور سول سوسائٹی رہنمائوں نے 11 مارچ 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے ایک غیر معمولی اجلاس میں ا س بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو کثیر جہتی معاشی، سماجی، سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے،لیکن اس کو بڑی حد تک بیرونی عناصر اور ان کے مقامی ایجنٹوں نے پیدا کیا جو ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں اور صورتحال کی خرابی کو بڑھا چڑحا کر پیش کر کے بحرانی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی اپنی طاقت اور قومی اعتماد کے عناصر ہیں جو پائیدار بہتری لا سکتے ہیں۔ حالات کو مایوسی کی طرف نہیں لے جانا چاہیے۔ اس کے بجائے، تبدیلی اور حل کے وژن کے ساتھ خود اعتمادی، اٹل لڑائی، اور ہر ممکن سطح پر مسلسل کوششیں ہونی چاہئیں۔
شرکاء نے موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ اخلاقی بحران، بدعنوانی اور ادارہ جاتی تنزل کو قرار دیتے ہوئے ملک میں جاری سیاسی، اقتصادی اور آئینی بحران کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط، مقامی، سول سوسائٹی، ملک گیر جدوجہد شروع کرنے کا مشورہ دیا۔
ماہرین نے ’گورننس ایمرجنسی‘ لگانے کی سفارش کی، جو ان کے بقول اقتصادی یا سیکیورٹی ایمرجنسی سے زیادہ اہم ہے۔
مقررین نے نوجوانوں اور نئی نسل کو با مقصد، محب وطن شہری بنانے کے لیے ان کی مناسب تعلیم کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ مسلسل بگڑتا ہوا سیاسی بحران جامع جمہوری، انتخابی اور معاشرتی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ، قابل اعتماد اور قابل قیادت کو فروغ دینے کے لیے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور عملی بنیادوں پر ایک جدید ترین سیاسی نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
آئ پی ایس کے کے چیئرمین خالد رحمان نے پاکستان کی مقامی سول سوسائٹی کو متحرک کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے ملک میں نمائندہ جمہوریت اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے متناسب انتخابی نمائندگی کے نظام کی تجویز پیش کی جو دنیا بھر میں حقیقی جمہورت اور گڈ گورننس کے لیے ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔
ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ پاکستان نے طویل عرصے سے معاشی اور انتظامی ضروریات کے لیے بیرونی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کیا ہے، جنہوں نے پھر ملک کی پالیسیاں مرتب کیں اور ملک میں صارفی ذہنیت کو فروغ دیا۔انہوں نے کہاکہ معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی معاشی مینیجرز کو مقامی حل کے حق میں فارغ کیا جائے اور آئی ایم ایف کے متبادل تلاش کیے جائیں۔
مفتی عبدالرحیم، سربراہ، جامعۃ الرشید، کراچی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اتفاق رائے قائم کرنا، حقائق کے زریعے اداروں پر تعمیری تنقید کرنا، میڈیا کا مثبت کردار ادا کرنا اورقومی یکجہتی کے زریعے امید کے پیغام کوفروغ دینا ا نتشار کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔
سابق وفاقی وزیر اور دانشور سینیٹر (ر) جاوید جبار نے زور دیا کہ جمہوری، انتخابی اور گورننس اصلاحات تمام ریاستی اداروں کی فعالیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
اجلاس سے ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، احمد بلال محبوب ،بانی صدر ، پلڈاٹ، مفتی منیب الرحمان، صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، محمد اکرم شیخ، ممتاز قانون دان، ڈاکٹر سید عرفان حیدر وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی، سید ابو احمد عاکف ، سابق وفاقی سیکرٹری، ،ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی، سابق وائس چانسلر ،یونیورسٹی آف ہری پور، ڈاکٹر جنید احمد زیدی ، سابق ریکٹر، کامسیٹس، ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سابق ممبر گورننس، پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق وفاقی سیکرٹری (فنانس)، مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی، سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس، پروفیسر جلیل عالی، ممتاز دانشور اور سابق سربراہ، شعبہ اردو، ایف جی۔ سرسید کالج، ڈاکٹر نوید بٹ، فزیشن، فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال، نذیر احمد مہر، گورننس اسپیشلسٹ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر، دی ریسرچ انیشیٹو، ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ طغرل یمین، سینیر ریسرچ فیلو ، آئی پی ایس ، ڈاکٹر مسعود محمود خان، کرٹن یونیورسٹی، آسٹریلیا، ڈاکٹر نورین سحر، ایسوسی ایٹ پروفیسر/ چیئرپرسن،شعبہ بشریات، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد، اور ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، سینئیر ریسرچ فیلو، آئ پی ایس نے بھی خطاب کیا۔
اجلا س کے شرکاء نے جنوبی افریقہ کے ماڈل کی طرز پر، ایک ‘سچائی اور مفاہمتی فورم’ کے قیام کا مطالبہ کیا۔
مشترکہ اعلامیہ |
جواب دیں