آئی پی ایس بلاگ | خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ
خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ
منیبہ راسخ
مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۳۲۵ کے تحت خودکشی کی کوشش یا اس میں معاونت ایک جرم تھا جس کی سزا ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں ہو سکتی تھی۔ تھامس بیبنگٹن میکالے کی ڈرافٹ کردہ یہ قانون سازی ۱۹۴۷ء کی تقسیم سے قبل نوآبادیاتی دور کی تھی۔ ۲۳ دسمبر ۲۰۲۲ کو ایوانِ صدر سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق صدر عارف علوی نے پاکستان پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کے سیکشن ۳۲۵ کو منسوخ کرتے ہوئے ایک بل کی منظوری دی جو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر شہادت اعوان نے پیش کیا تھا ۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے اس بل کی مخالفت کی تھی۔ اس بل کے مطابق چونکہ خودکشی کی کوشش کرنے والا کسی ڈپریشن، ذہنی بیماری یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے چنانچہ اسے سزا دینا درست نہیں کیونکہ ایک ذہنی مریض مجرم نہیں ہوتااور مریض سزا کا نہیں، علاج کا حقدار ہوتا ہے۔ مختصراً خود کشی کی کوشش اب جرم نہیں ہے لہٰذا اس پر سزا نافذ نہیں کی جا سکتی۔ اس ضمن میں چند امور کی وضاحت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کی رو سے خودکشی جرم ہے یا نہیں ؟ اگر جرم ہے توکیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خودکشی کی کوشش پر سزا کو ختم کرنا ایک درست فیصلہ ہے ؟ کیا اس سزا کے خاتمے کے لیے جس طرح استدلال کیا گیا ہے، وہ درست ہے؟ کیا اس قانون کا مقصد واقعی میں وہی ہے جو بتایا جا رہا ہے؟ اور اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟
خودکشی کے جرم ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے سوچ کے دو زاویے ہیں۔ ایک طرف تو وہ سوچ ہے جس کے مطابق یہی زندگی سب کچھ ہے اور اگر اس زندگی میں ایک شخص خود کو یا دیگر افرادِ معاشرہ کو نفع دینے کے قابل نہیں رہا تو اس کا ہونا، نہ ہونا برابر ہے۔اور یہ کہ انسان کا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت ہے تو ایک فرد کے اپنی جان لینے سے خدا کو اور معاشرے کو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ دوسری جانب سوچنے کا وہ انداز ہے کہ یہ زندگی فانی اور آخروی زندگی دائمی ہے۔ اس عارضی زندگی میں کیے گئے ہر عمل کی جواب دہی آخرت میں ہوگی۔ بل توثرون الحیوة الدنیا والآخرۃ خیر وابقٰی میں فنا و بقا کے اسی تقابل کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
دلائل سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث میں خودکشی کو ایک بڑا جرم قرار دینے کی وجہ کیا ہے؟درحقیقت انسان کی اپنی زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہے۔ یہی نعمت تمام نعمتوں کی اساس ہے۔ اسی لیے اسلام نے تمام افرادِ معاشرہ کو جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے بہرصورت زندگی کی حفاظت کا پابند کیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ارشادِ ربانی ہے
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة
"اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو”۔
امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۰ کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے
أراد به قتل المسلم نفسه کہ اس سے مراد مسلمان کا خود اپنی جان لینا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ نے فرمایا
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًا۔
"اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے”۔
اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی نے لکھا ہےکہ
يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل۔
یعنی یہ آیت ناحق قتل اور خودکشی کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔مزید برآں امام بغوی نے ’’معالم التنزيل‘‘ میں، حافظ ابن کثیر نے ’’تفسير القرآن العظيم‘‘ میں اور ثعالبی نے ’’الجواهر الحسان في تفسير القرآن‘‘ میں سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیات کے ضمن میں خود کشی کی حرمت پر مبنی احادیث درج کی ہیں۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفسیر کے نزدیک یہ آیات خود کشی کی ممانعت و حرمت پر دال ہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا میں واضح طور پر اپنے جسم و جان اور اعضاء کی حفاظت کی تلقین کی ہےاورخود کشی جیسے حرام فعل کے مرتکب کو من قتَلَ نفسَهُ بحديدةٍ جاءَ يومَ القيامَةِ وحديدتُهُ في يدِه يتوجَّأُ بِها في بطنِهِ في نارِ جَهنَّمَ خَالدًا مخلَّدًا أبدًا ومن قَتلَ نفسَه بسُمٍّ فَسمُّهُ في يدِه يتحسَّاهُ في نارِ جَهنَّمَ خالدًا مخلَّدًا فرما کر دردناک عذاب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت انسان کی زندگی اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے اورجس طرح کسی دوسرے انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے،اسی طرح خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنا بھی اللہ کے ہاں ایک ممنوع و قبیح فعل ہے۔
غور کیا جائے تو زیرِ بحث بل کے پیچھے بھی اپنے جسم و جاں کے خود مالک ہو نے کی سوچ ہی کارفرما نظر آتی ہے جو اسلامی قانون کے مطابق قطعاً نہیں۔ خودکشی پر کی جانے والی حالیہ بحث ڈیوڈ ہیوم کے نظریات کے عین مطابق ہے۔وہ کہتا ہے کہ”I believe that no man ever threw away life, while it was worth keeping”یعنی زندگی کی حفاظت تب تک کی جائے جب تک یہ جینے کے لائق ہو۔ اور یہ کہ اپنی جان لینے والا نہ تو اپنےخلاف،نہ خدا کے خلاف اور نہ ہی معاشرے کے خلاف کوئی کام کرتا ہے۔ یہی نظریہ حقِ خودکشی کے لیے استدلال کی بنیاد ہے۔
اس قانون کے لیے جس قسم کا استدلال پیش کیا گیا ہے اگر اس کی پیروی شروع کردی گئی تو تباہی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ پھر خسارہ لازمی ہے۔ یعنی اگر خودکشی کو جرائم کی فہرست سے خارج کردیا جائے تو اگلے قدم پر خودکشی میں معاونت اور ترغیب کو بھی جرم نہیں کہا جائے گا کیونکہ اگر فعل ہی جرم نہیں تو اس پر اکسانا کیسے جرم ہو سکتا ہے؟اس مقصد کے لیے سب سے پہلا قدم طبی معاونت سے خودکشی کی طرف بڑھایا جائے گاجس کے لیے اس کا اذیت میں مبتلا ہونا، اذیت سے نجات پانے کا خواہش مند ہونا جیسے دلائل کا انبار لگانا مشکل نہیں ہے۔ طبی معاونت سے خودکشی یعنی Voluntary euthanasiaکے بعد بات بڑھ کر Involuntary euthanasia تک پہنچے گی کہ مقصود تو ایک یعنی اذیت سے نجات ہی ہے پھر ممانعت کیسی۔ اس کے بعد بالترتیب منفی اور مثبت Euthanasia کا جواز تلاش کیا جائےگا۔اور یوں "میری زندگی میری مرضی” کی جڑیں مضبوط تر ہوتی چلی جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ خودکشی کو جرائم کی فہرست سے نکالنے کے لیے نفسیاتی امراض کو جواز بنانا کیساہے؟کیا یہ واقعی حالات کے ستائے اس شخص کے لیے ایک ہمدردانہ اقدام ہے یا پسِ پردہ کوئی اور مقاصد ہیں؟ جہاں تک تعلق نفسیاتی مسائل کا ہے تو اس طرح جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کے لیے بھی ڈپریشن اور حالات سے مجبوری اور لاچارگی کو جواز بنایا جا سکتا ہے کہ کوئی صحت مند یا خوش باش انسان تو غلط کام نہیں کرتا۔ ظاہر ہے حالات کی وجہ سے مجبور ہی ہوگا۔یادرہے کہ اسلامی قانون میں مجنون کے مکلف نہ ہونے کی بھی خاص شرائط ہیں نہ کہ مطلقًاdepression, mental illness” اور “disorders کا شکار ہونا۔
رہی بات خودکشی کے مرتکب کے حق میں بہتری کی تو اگر اس بل کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا وہ ٹھیک ہو پائے گا؟ کیاڈپریشن کے شکار اس فرد کا علاج اور تھراپی کسی قانون کے نفاذ کے بغیر ممکن ہے؟یعنی بجائے اس کے کہ اس کے باقاعدہ سیشنز کیے جائیں، اپنی نگرانی میں رکھ کر ہی اس کے علاج کا انتظام کیا جائے،اسے بالکل تنہا چھوڑ دینا کہاں کی دانشمندی اور کیسی ہمدردی ہے؟اس وقت ملکی حالات کے پیشِ نظرہر شخص پریشانِ حال اور ڈپریسڈہے تو کیا وہ خود کو ختم کرلے؟دیکھا جائے توبیماری کے علاج کی نسبت اس کی تشخیص اور اسباب کا تدارک زیادہ ضروری ہے تا کہ مریض کے ساتھ ساتھ جو اب تک محفوظ ہیں وہ بھی بچ سکیں مگر اس سمت کوشش کرنے کی بجائے مریض کو ہی لاعلاج قرار دینے کا ساماں کیا جا رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں کہ جن قوانین سے انسان کی آزادی اور اختیارِ کلی کو ثابت کیا جا سکتا ہو ان میں ہی مسلسل تبدیلی کی جا رہی ہے حالانکہ کئی دوسرے معاملات توجہ طلب ہیں؟ یہ کیسا فسونِ باطل اور محکومیت ہے کہ جن قوانین میں تصورِخدا ہے، رفتہ رفتہ انہی میں ترامیم اور تنسیخ کی جا رہی ہے اور خدا کے مختارِ کل ہونے کو مسلسل حذف کیا جارہا ہے!
جواب دیں