’اسلامی مالیات کے پائیدار ترقی کے پہلو‘
اسلام کا مالیاتی نظام، روایتی مالیاتی نظام کے مسائل کا بہترین متبادل فراہم کرتا ہے: پروفیسر مونزر کہف
پروفیسر مونزر کہف کے مطابق، اسلام کے مالیاتی نظام میں اقتصادی استحکام اور پائیداری کا ایک فطری عنصر موجود ہے جس میں تمام جہتوں کی عکاسی موجود ہے۔ اور اگر اسےدرست طریقے سے اپنایا جائےتو وہ روایتی مالیاتی نظام کے چیلنجوں اور اس کے مسائل کا بہترین متبادل حل فراہم کرتا ہے۔
یہ گفتگو ،استنبول صباحتین زیم یونیورسٹی میں اسلامی مالیات اور معاشیات کے پروفیسر مونزر کہف نے 12 اکتوبر 2022 کو آئی پی ایس کے زیر اہتمام ایک آن لائن لیکچر میں کی جس کا عنوان تھا ’’سسٹین ایبل ڈویلپپنٹ ایسپیکٹس آف اسلامک فنانس ‘‘ ۔
انہوں نے کہا کہ استحکام اور ناپائیداری کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور مالیاتی نظام کے بیشتر اجزاء ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ عدم استحکام کے ساتھ ناپائیداری آتی ہے۔ اور پروفیسر مونزر کے مطابق، مالیاتی نظام کے عدم استحکام کا سبب مالیاتی تعلقات اور سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کی نوعیت ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ باہمی تعلقات کی غیر یقینی صورتحال کے ساتھ ساتھ کمزورطرزِحکمرانی، ناقص نگرانی، میکرو اکنامک مسائل اور کرنسی ایکسچینج کے معاملات عدم استحکام کا ایک بڑا عنصر ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اس فطری عدم استحکام میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ضرورت سے زیادہ قرض داری ہے جو نظام کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے ،جس کے نتیجے میں مالیاتی بحران پیدا ہوتا ہے اور پورا مالیاتی نظام ہی بیٹھ جاتاہے۔
مزید برآں، سرمایہ دارانہ نظام میں بینکنگ ادارے اس قدر جڑے ہوتے ہیں کہ ایک بینک کی ناکامی پورے بنکنگ نظام پرڈومینو اثرات کا سبب بنتی ہے جو بالآخر قرض دینے والے بینکوں کی پوری چین کو ختم کرنے پرمنتج ہوتی ہے۔ یہ عدم استحکام مالیاتی صنعت کے ریگولیٹری طرز عمل اور نقطۂ نظر میں مروجہ ہچکچاہٹ اور تضاد کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اسلام کا مالیاتی نظام حقیقت پسندانہ طرزِ عمل، انصاف اور اخلاقیات پر مبنی ہونے کے باعث ایسے فطری عناصر پر مشتمل ہے جو پائیداری اور استحکام کے پہلوؤں سے انتہائی اہمیت کے حال ہیں۔ انصاف پر مبنی اخلاقی بنیادوں کے باعث اس کا حقیقی معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ اسلامی فنانس جائیداد کے ایک جامع تصور پر مبنی مالیاتی نظام ہے جس میں ترقیاتی نقطۂ نظر حاوی ہے۔ اس میں کوئی ڈومینو اثر اور قرض کی تجارت نہیں ہے اور اس میں فنانسنگ پر واپسی کا تعین حقیقی مارکیٹ سے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئےکہا کہ اسلام کا مالیاتی نظام معاشی اور سماجی انصاف کی تعمیل ہے کیونکہ یہ قرضوں کی بجائے اثاثوں کی ملکیت اور اسلامی بینکوں میں رسک ٹرانسفر کی بجائے شراکت داری اور رسک شیئرنگ پر مبنی تعلقات استوار کرنے سے کام کرتا ہے۔ یہ مفید مصنوعات پر فنانسنگ اور منصفانہ، اخلاقی، ترقیاتی، اور معاشرے میں دوستانہ مقاصد کے پہلو سےفنڈز کا استعمال کر کے حسن عمل کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔
اسلامی مالیاتی نظام کے ذریعےآنے والےمعاشی استحکام اور پائیداری کا ثبوت 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران اسلامی بینکاری میں موجود لچک کے باعث سامنے آیا جو کہ مالی استحکام اور عالمی غیر یقینی صورتحال کے انڈیکس (WUI) کی متعدداسٹڈیزمیں موجودہے۔ اسی لچک اور استحکام کا مظاہرہ کووڈ-19کی وباءکے دوران ہوا جب اسلامی بینکاری اور اسلامی فنڈز کے شعبے میں مسلسل اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس، دیگر اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ مالیاتی زوال کی وجہ سے اسلامی بینکوں اور اسی سائز کے دوسرے روایتی بینکاری اداروں پر پڑنے والے اثرات کے درمیان اعداد و شمار کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
لیکن پروفیسر مونزر کے مطابق اس کا اثر کسٹمر ڈیلنگ کے ذریعے ہوا، جہاں اسلامی بینکوں کو اسلامی اور روایتی بینکنگ دونوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ممالک کے قوانین کا بھی سامنا تھا جو اسلامی بینکوں کے ساتھ روایتی بینکوں کو بھی رئیل اسٹیٹ میں ملکیت اور تجارت کی اجازت دیتے تھے۔ اور جب متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت جیسے ممالک میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں کم ہوئیں تو اسلامی بینک بھی خسارے میں چلے گئے۔
چناچہ، اسلام کا مالیاتی نظام نہ صرف نظریاتی بلکہ عملی طور پر بھی مستحکم اور لچکدار ہے۔تاہم، اس کا انحصار بعض ماحولیاتی اور دیگر عوامل پر ہے۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ آگے بڑھنے کے لیےمالیات کے شعبے میں اصلاحات متعارف کراتے ہوئے، اسلامی مالیات کے کلیدی اصولوں پر عمل درآمد کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی مالیات میں پراپرٹی کانظریہ، اسلامی مالیاتی ٹرانسزیکشنز میں ظاہر ہونے والی حقیقت پسندی، اوراسلامی فنانس کے معاہدوں میں اخلاقی وابستگی کی جھلک نمایاں مثالیں ہیں۔
جواب دیں