‘امریکی مسلمانوں، ان کی انسانی خدمات اور اسلامو فوبیا کے اثرات’

‘امریکی مسلمانوں، ان کی انسانی خدمات اور اسلامو فوبیا کے اثرات’

مغربی میڈیا کی متعصبانہ تصویر کشی مسلم مخالف جذبات کو ہوا دیتی ہے: ڈاکٹر عبدالصمد

مغرب میں مسلم مخالف تعصب کو بڑے پیمانے پر میڈیا کی یک طرفہ اور ایک مخصوص انداز میں تصویر کشی سے ہوا ملتی ہے، جس سے  ان کے بارے میں معاشرتی اور حکومتی سطح پر منفی تاثرات کو تقویت ملتی ہے۔ مزید برآں، سیاسی ادارے اپنے مفاد کے لیے ان احساسات کو بڑھاتے ہیں اور ان تعصبات کا استحصال کرتے ہیں۔ اس طرح امتیازی رویوں کو مزید شدت حاصل ہوتی ہے۔

یہ بات انڈیانا یونیورسٹی کے لِلی فیملی سکول آف فلانتھراپی میں مسلم فلانتھراپی انیشی ایٹو کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد نے 7 مئی 2024 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ‘امریکی مسلمانوں، ان کی انسانی خدمات اور اسلامو فوبیا کے اثرات’ پر لیکچر دیتے ہوِئے کہی۔  اس سیشن سے چئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے بھی خطاب کیا جبکہ آئی پی ایس کے ریسرچ فیلو عبداللہ عدنان نے اس کی نظامت کی۔

امریکہ میں کل آبادی کا صرف 1.1% ہونے کے باوجود امریکی مسلمان فلاحی کاموں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کو سماجی و اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن پھر بھی خیراتی کاموں کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریباً 4.3 بلین ڈالر سالانہ عطیہ کرتے ہیں جن میں عبادت گاہوں، بیرون ملک امداد، شہری حقوق، گھریلو ریلیف، کورونا، اور ایسے دیگر مواقع پر دیے جانے والے عطیات شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبد الصمد نے مسلم کمیونٹی کے تنوع ، مسلم مخالف جذبات اور اسلام فوبیا کی وجہ سے انہیں درپیش چیلنجوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے ان مختلف جہتوں کی وضاحت کی جن کے ذریعے اسلامو فوبیا ظاہر ہوتا ہے  اور جو اب ایک  ادارہ جاتی شکل اختیار کر کے اجتماعی شعبہ جات سے لے کر انفرادی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔

ادارہ جاتی سطح پر ڈاکٹر صمد نے مسلم مخالف قانون سازی اور پالیسیوں کے اثرات کو اجاگر کیا، جو امریکی مسلمانوں کے خلاف نظامی امتیاز کو برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے ملک میں مسلمانوں کے لیے دشمنی کے ماحول میں اہم کردار ادا کرنے والے عوامل کے طور پر میڈیا کے متعصبانہ تصویر کشی اور سیاسی شخصیات کی طرف سے مسلم مخالف بیان بازی کی بھی نشاندہی کی۔

مزید برآں، انہوں نے کمیونٹی کی سطح پر مسلمانوں کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ مسلم مخالف نفرت انگیز گروہوں میں ہونے والا خطرناک اضافہ اور پناہ گزینوں کی آباد کاری کی کوششوں کے خلاف مقامی آبادی میں بڑھتی ہوئی مزاحمت سماجی سطح پر مسلمان افراد اور خاندانوں کو متعدد مسائل سے دوچار کر رہی ہے۔ سماج کی جانب سے درپیش یہ مسائل انفرادی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ہراسگی، نفرت انگیزی، غنڈہ گردی اور تشدد جیسے واقعات کی تعداد میں اضافے سے مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس طرح کے اسلاموفوبک مظاہر بڑی حد تک متعصب میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے نسلی امتیاز اور بدی کو ان سے مستقل طور پر منسوب کر کے بنائے گئے ہیں۔  تاہم، غزہ کے حالیہ بحران کے نتیجے میں امریکہ کے اندر مسلمانوں کے لیے وسیع تر ہمدردی کی ایک بڑھتی ہوئی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ ریاستی سطح پر تعصب اور امتیاز سے نمٹنے  اور ایسے اقدامات کے تدارک کے کا ایک نظام موجود ہے جس کی وجہ سے ایسے معاملات ہمیشہ ایک حد کے اندر ہی رہتے ہیں۔

ڈاکٹر عبد الصمد نے دنیا بھر میں عقیدے پر مبنی تنظیموں کے نمایاں اثر و رسوخ اور ایک دوسرے کی حمایت اور اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے میں مختلف مذہبی برادریوں کی مشترکہ کوششوں کا بھی ذکر کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے مسلم غیر منافع بخش اداروں کے درمیان ربط اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے انڈیانا یونیورسٹی کے بعض اقدامات کی وضاحت کی، جس میں 25 ایسی مسلم تنظیمیں شامل ہیں جو انسان دوستی کی تحقیق کو فروغ دینے، متنوع انسان دوست خیالات پیدا کرنے، اور مذہبی تعصبات کے خلاف کمیونٹیز کی حمایت کرنے کی کوششوں میں پائیداری کو فروغ دینے کے لیے مختلف اداروں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک کوآپریٹو پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتی ہیں۔

انسان دوستی کے تصور  پر بات کرتے ہوئے مہمان مقرر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مسلم انسان دوستی کا تصور محض چندے کی ادائیگی سے بالاتر ہے۔ اس میں غیر مالیاتی اعمال بھی شامل ہیں، جیسے کسی کو وقت دینا، کسی کی گواہی دینا، اور یہاں تک کہ مسکراہٹ جیسے سادہ اعمال بھی شامل ہیں۔

اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے مسلمانوں کی انسان دوستی سے بھرپور تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم مزاج اور سماج کو مغرب کے طے کردہ  معیارات سے ماورا دیکھنے کی ضرورت ہے جن کا محور پیسہ اور مالیاتی منفعت ہے۔

انہوں نے انسانی خدمت کے بدلتے ہوئے طریقوں اور تصور پر بھی روشنی ڈالی اور عالمی سیاست، خاص طور پر جاری غزہ کے بحران سے متاثر ہونے والی تبدیلی کی حرکیات کو ایک اہم واقعہ کے طور پر ذکر کیا جس نے انسانی نقطہ ہاے  نظر اور ترجیحات کو نئی شکل دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے لیے انسان دوستی کی کوششیں مذہبی حدود سے بالاتر ہیں اور اس نے اسلامو فوبیا کو زیر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب مسلمانوں کو مغربی دوہرے معیارات کے متاثرین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور انفرادی سطح پر مسلمانوں سے متعلق عام رائے میں واضح تبدیلی آئی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے