ایمبیسیڈر ابرار حسین کا دوطرفہ کشیدگی کے باوجود پاک افغان اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بھی قسم کاعدم استحکام تعمیر و ترقی کی راہ میں میں رکاوٹ بنے گا اور مشترکہ دشمنوں کے لیے باعثِ راحت ہو گا۔ اس لیے دونوں ممالک کو اپنے مشترکات کو اختلافات پر ترجیح دینی چاہیے اور اسٹریٹجک سوچ اور دہشت گردی سے نمٹنے، اور امن و خوشحالی کے فروغ کے لیے مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار آئی پی ایس کے وائس چیئرمین سابق سفیر سید ابرار حسین نے 16 جنوری 2023 کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو)، اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار بعنوان ‘سیکورٹی اور ترقی میں توازن: دہشت گردی، پناہ گزینوں کا بہاؤ اور سرحدی سلامتی’ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سفیر ابرار نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جڑے ہوئے تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے دوطرفہ کشیدگی کے باوجود سٹریٹجک تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے تاریخی طور پر بحرانوں کے دوران افغانستان کی مدد کی ہے اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ تاہم، اب جب کہ افغانستان میں امن ہے، پاکستان غیر دستاویزی تارکینِ وطن کی اپنے وطن واپسی کا خواہاں ہے تاکہ وہ افغانستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اب بھی تقریباً 2.7 ملین افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے اور دیگر ممالک میں افغان مہاجرین کی آباد کاری میں بھی مصروف ہے۔
مزید برآں، افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے بڑھے ہوئے سیکورٹی خدشات، پاکستان کو غیر قانونی تارکین وطن کے انخلاء پر مجبور کرتے ہیں۔ ان حملوں میں 2022 میں 28 فیصد اور 2023 میں حیرت انگیز طور پر 79 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے فیصلے سے افغانوں میں تشویش پائی جاتی ہے، جو انسانی بحران سے خوفزدہ ہیں اور اس فیصلے کو جلد بازی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے اچانک اعلان میں جلد بازی کے اس تاثر نے غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے جس کے لیے جوابی بیانیہ ہونا چاہیے۔
مزید یہ کہ غیر قانونی افغانوں کے مسئلے کو جامع انداز میں حل کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ یہ مناسب ہے کہ پاکستان کو اپنی پالیسی کو واضح طور پر بیان کرنا چاہیے، تاہم یو این ایچ سی آر اور انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن جیسی بین الاقوامی تنظیمیں افغانستان میں کھینچا تانی کے عوامل سے فائدہ اٹھانے کے لیے تعمیری مشغولیت اور تعاون کو فروغ دے سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا اہم عنصر، یعنی امن، پہلے سے موجود ہے۔ دیگر عوامل میں رہائش کے لیے جگہ، زمین کا ایک ٹکڑا، کاروبار شروع کرنے کے لیے کچھ رقم، اور سرکاری ملازمتوں میں پناہ گزینوں کے لیے کچھ کوٹے شامل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان واپس آنے والے طلباء کے لیے افغان تعلیمی اداروں میں وظائف کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، افغان مہاجرین کے لیے دیگر ممالک میں بھی ایک جامع طریقہ کار کے طور پر مراعات پیدا کی جا سکتی ہیں۔
جواب دیں