بجلی کی ترسیل کے نظام میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے: آئی پی ایس کی تحقیق میں توانائی کے شعبے کے لیے پالیسی تجاویز
پاکستان میں توانائی کا شعبہ سنگین بحران کا شکار ہے اور اسے اس بحران سے نکالنے کے لیے جامع اور فعال گورننس اور پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کے لیے کاروباری ماڈلز کی ترقی ، ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کے ذریعے توانائی کی مارکیٹ کو آزاد کرنا،بجلی پیدا کرنے والے نجی شعبےکے لیے جنریشن ٹیرف پرازسر نو گفت و شنید، تقسیم کار کمپنیوں کی انتظامی اور آپریشنل سرگرمیوں کی تفریق اور ڈی ریگولیشن جو کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی راہ ہموار کرے، اورجدیدیت کے لیے تیز رفتار اصلاحات کا نفاذ شامل ہیں۔
یہ اور ان کے علاوہ کئی دیگر قابل عمل پالیسی آپشنز اور اس شعبے کی پائیدار ترقی کے عملی حل اس جامع مطالعہ میں پیش کیے گئے ہیں، جس کا عنوان ہے ’پٹ فالز ان پاور سیکٹر آف پاکستان: ایکیومیلیشن آف سرکولر ڈیٹ-کازس، کونسیکیواینسسز اینڈوے فارورڈ‘۔ اس مطالعہ کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) نے کیا تھا جسے حال ہی میں اس کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ جس کا لنک یہ ہے:
پاور سیکٹر کو درپیش رکاوٹوں اوراس میں ہونے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والی اس تحقیقی رپورٹ میں بالخصوص ان گردشی قرضوں پر توجہ مرکوز کی ہے جو اب 4 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ان کے اس غیرمعمولی اضافے میں جن عوامل نے کردار ادا کیا ہے، رپورٹ میں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے قابل عمل حل تجویز کیے گئے ہیں۔
پاور سیکٹر طویل عرصے سے متعدد مسائل میں الجھا ہوا ہے جو نہ صرف پائیدار ترقی بلکہ اس اہم شعبے کی مؤثر اورتزویراتی ترقی میں بھی رکاوٹ ہیں۔ ان عوامل کے باعث، پاکستان توانائی کے بحران سے شدید متاثر ہوا ہے جس کے نتیجے میں مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
گردشی قرضے میں اضافے کاباعث بننے والےعوامل میں، مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار، تھرمل ذرائع سے پیداواری لاگت میں اضافہ ، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی ناقدری، ناقص گورننس اور پالیسی کی خرابیاں، ریگولیٹری مسائل، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ریونیو کی ناکافی وصولی، مالیاتی استحکام کے مسائل ، صلاحیت کے معاوضے، عمر رسیدہ انفراسٹرکچر، اور لائن لاسز شامل ہیں ۔ گردشی قرضوں میں اضافے کے باعث سرکاری اور نجی اداروں کے لیے مناسب نقدی کے بہاؤ کو برقرار رکھنا ٹیرف میں ایک باقاعدہ اضافہ کا سبب بنتا ہےاور اس سےصارفین کی توانائی کی استطاعت متاثر ہوتی ہے۔
مزید برآں، پاکستان کے پاور سیکٹر کی مربوط مارکیٹ جزوی طور پر اجارہ دار ی کا شکارہے، جس کے لیےریاستی ادارے غالب کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس نظام کے نتیجے میں اداروں کے درمیان مقابلے کی فضا وجود نہیں رکھتی۔ اس وقت پاکستان میں 78 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں اوران میں سے زیادہ تر درآمدی ایندھن پرانحصار کرتےہیں۔
کے الیکٹرک کو چھوڑ کر ملک میں بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت 40,813 میگاواٹ ہے۔سال2021-22 کے دوران سسٹم میں سب سے زیادہ طلب 28,253 میگاواٹ تھی۔ تاہم بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی ترسیلی صلاحیت 23,000 میگاواٹ پر جمود کا شکار ہے۔ دوسری جانب، مالی سال 2021-22 میں سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات نیپرا کی جانب سے مقرر کردہ 13 فیصد ہدف کے مقابلے میں 17 فیصد سے زائد تھے۔ چنانچہ اضافی بجلی ہوتے ہوئے بھی، فرسودہ اور ناقص ترسیل اور تقسیم کے نظام کے باعث صارفین کو بجلی کے زیادہ نرخ ادا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ اس منظر نامے میں، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پاور سیکٹر کو اس دلدل سے نکالنے کا راستہ ہے۔ اس کے لیے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور لائن لاسز کو کم کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔ صارفین پر بوجھ کی ایک بڑی وجہ فرسودہ اور کم مؤثر پاور ٹرانسمیشن سسٹم ہے۔ لہذا، توانائی کی منتقلی اور ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ، بجلی کی ترسیل کو سرمایہ کاری کا ترجیحی میدان ہ بنایا جانا چاہیے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے اس بات کو فوری ضرورت قرار دیا کہ حکومت کی طرف سے مالیاتی منصوبہ سازی اور سرمایہ کاری کی پالیسی بنائی جائے۔ انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی طرف سرمایہ کاری اس شعبے کی کمزوریوں کو دور کر سکتی ہے اور بجلی کے نرخوں کو منطقی بنانے میں بھی مدد کر سکتی ہے، جو خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اشد ضرورت پر بھی زور دیا۔
رپورٹ میں نمایاں کیے گئے مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم اصلاحات، سرمایہ کاری اور پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ تاہم اس کے باعث، پاور سیکٹربالآخر زیادہ پائیدار، مؤثر اور لوگوں کے لیے قابل رسائی بن سکے گا۔
جواب دیں