بین الاقوامی علماءکی نظر میں بڑھتاہوا شناختی بحران مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں
مسائل کا حل اجتہاد اور اسلام کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کر نے میں مضمر ہے
مسلمان نوجوانوں میں شناخت کا بحران متعدد عوامل کی وجہ سے نمایاں طور پر سامنے آ رہا ہے، اور اپنی شناخت کے ارتقاء کے مسائل ان کے درمیان الجھن کا باعث بن رہےہیں ـ
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سمیع الاریان، بانی ڈائریکٹر، سینٹر فار اسلام اینڈ گلوبل افیئرز (CIGA)، استنبول، نے ۱۹جون۲۰۲۳ کو آئی پی ایس میں منعقدہ ‘آج کے مسلمان نوجوان: شناخت کا سوال’ کے عنوان سے ایک مباحثے کے دوران کیا۔اس مباحثے کا مقصد شناخت کے بحران کا حقیقت پسندانہ جائزہ تیار کرنا اور مربوط علم پر مبنی مستقبل کے لیے عملی حل تلاش کرنا ہے۔
دو مرحلوں میں منعقد ہونے والے اس مباحثے کے پہلے مرحلے میں ڈاکٹر سمیع الاریان اور ڈاکٹر جنید احمد، کالج آف ولیم اینڈ میری، ولیمزبرگ (یوایس)، نے خطاب کیا، جس میں عالمی مسلمانوں کے وسیع تناظر میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی۔
اس کے بعد دوسرے مرحلے میں اہم خدشات اور ان کے حل کی نشاندہی کرنے کے لیے نوجوانوں میں رجحانات اور طریقوں پر بحث ہوئی ۔ اس مباحثے میں ڈاکٹر محی الدین ہاشمی، ڈین، فیکلٹی آف عربی اینڈ اسلامک اسٹڈیز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ڈاکٹر غلام حسین، اسسٹنٹ پروفیسر، بحریہ یونیورسٹی، عمار محبوب، کریکٹر ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں پروگرام کے سربراہ ، ڈاکٹر محمد ریاض، اسسٹنٹ پروفیسر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، ڈاکٹر افشاں ہما، اسسٹنٹ پروفیسر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، ڈاکٹر وقاص خان، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیزمحکمہ کے سربراہ، ڈاکٹر حافظ طاہر اسلام عسکری، اسسٹنٹ پروفیسر، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، امینہ سہیل، ایڈووکیٹ، ابو سعد، یوتھ کلب ، ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر ریسرچ اور اکیڈمک آؤٹ ریچ، آئی پی ایس، اور خالد رحمان، چیئرمین آئی پی ایس ،نے حصہ لیا ۔
ڈاکٹر سمیع نے اس بات پر زوردیا کہ آدمی اپنی بنیادی شناخت کے مطابق زندگی گزارتا ہے، جو کہ ایک انسان کا آزاد اور باخبر انتخاب ہوتی ہے اور دیگر تمام شناختیں رہنمائی کے لیے اس پر انحصارکرتی ہیں۔
مسلمانوں کے لیے ہدایت کا حتمی ذریعہ قرآن ہے جو ان کی بنیادی شناخت ہے۔ تاہم شناختی بحران کے اس دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان واقعی قرآن کو سمجھے اور اس کے پیغام کو صحیح معنوں میں لے ۔ یہ اس لیےبھی ضروری ہے تاکہ مسلم نوجوان متعدد شناختوں کے معنی سمجھ سکیں اور یہ احساس پیدا کر سکیں کہ خود کو متعدد شناختوں کے ساتھ کیسے دیکھا جائے۔ ڈاکٹر سمیع نے توحیدی تمثیل، اس کے دائروں، بنیادی شناختی ماڈل اور اصولوں کے بارے میں بھی بات کی۔
گفتگو میں اضافہ کرتے ہوئےڈاکٹر جنید نے کہا کہ جغرافیائی اور نسلی شناخت اب بڑی حد تک ثانوی شناخت بن چکی ہے، جو مسلمان ہونے کی بنیادی شناخت سے آگے نکل گئی ہے۔ اسلاموفوبیا نے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دیا ہے، جبکہ نوجوان مسلمانوں کو مقامی اور عالمی مسائل سے آگاہ کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجتاً، نوجوان بے احتیاطی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ہچکچاتے ہیں کہ ان مسائل کا جواب کیسے دیا جائے۔ مسلم نوجوانوں کو حالات کو بہتر بنانے کے لیے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد مقررین نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ شناخت کے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد اور تخلیقی تحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر محی الدین نے گفتگو بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشروں کو ایک تفریق کا سامنا ہے جہاں سماجی اخلاقیات تو اسلام نے تشکیل دی ہیں لیکن علم مغرب کے تاریخی تجربات اور اس کے عصری نقطہ نظر سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ اختلاف شناخت کے سوال کا سبب بنتا ہے۔ عالمی سطح پر نوجوان مسلمانوں میں شناخت کا بحران بھی اسلامو فوبیا اور عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بدلتے وقت میں اس طرح کے خدشات سے نمٹنے کے لیے اجتہاد جاری تو رہتا ہے لیکن میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے نئے نظریات اور بیانیے کے مطابق ڈھالا نہیں جاتا ۔ بین الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتہاد پر سنجیدگی سے غور کرنا اور اسے نئے نظریات اور بیانیے کے مطابق ڈھالنا بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی کنونشنوں، معاہدوں اور اعلامیوں میں بھی مسلم نقطہ نظر کی عکاسی ہونی چاہیے۔
مقررین نے نوجوانوں میں کردار سازی کو تقویت دینے پر توجہ دیتے ہوئے تعلیمی نظام اور نصاب پر نظرثانی کی ضرورت پر مزید زور دیا۔ علم پر مبنی معاشرے کے لیے تنقیدی سوچ اور سوال پوچھنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔
سیشن کے اختتام پرخالد رحمن نے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے اور کیریئر اور مالیاتی فوائد پر مرکوز ایک بے مقصد زندگی سے توجہ ہٹانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ تبدیلی لانے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوشش ہونی چاہیے۔ کوئی ایک شخص مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔
گفتگو میں اضافہ کرتے ہوئےڈاکٹر جنید نے کہا کہ جغرافیائی اور نسلی شناخت اب بڑی حد تک ثانوی شناخت بن چکی ہے، جو مسلمان ہونے کی بنیادی شناخت سے آگے نکل گئی ہے۔ اسلاموفوبیا نے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دیا ہے، جبکہ نوجوان مسلمانوں کو مقامی اور عالمی مسائل سے آگاہ کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجتاً، نوجوان بے احتیاطی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ہچکچاتے ہیں کہ ان مسائل کا جواب کیسے دیا جائے۔ مسلم نوجوانوں کو حالات کو بہتر بنانے کے لیے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد مقررین نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ شناخت کے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد اور تخلیقی تحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر محی الدین نے گفتگو بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشروں کو ایک تفریق کا سامنا ہے جہاں سماجی اخلاقیات تو اسلام نے تشکیل دی ہیں لیکن علم مغرب کے تاریخی تجربات اور اس کے عصری نقطہ نظر سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ اختلاف شناخت کے سوال کا سبب بنتا ہے۔ عالمی سطح پر نوجوان مسلمانوں میں شناخت کا بحران بھی اسلامو فوبیا اور عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بدلتے وقت میں اس طرح کے خدشات سے نمٹنے کے لیے اجتہاد جاری تو رہتا ہے لیکن میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے نئے نظریات اور بیانیے کے مطابق ڈھالا نہیں جاتا ۔ بین الاقوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے اجتہاد پر سنجیدگی سے غور کرنا اور اسے نئے نظریات اور بیانیے کے مطابق ڈھالنا بہت ضروری ہے۔ بین الاقوامی کنونشنوں، معاہدوں اور اعلامیوں میں بھی مسلم نقطہ نظر کی عکاسی ہونی چاہیے۔
مقررین نے نوجوانوں میں کردار سازی کو تقویت دینے پر توجہ دیتے ہوئے تعلیمی نظام اور نصاب پر نظرثانی کی ضرورت پر مزید زور دیا۔ علم پر مبنی معاشرے کے لیے تنقیدی سوچ اور سوال پوچھنے کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔
سیشن کے اختتام پرخالد رحمن نے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے اور کیریئر اور مالیاتی فوائد پر مرکوز ایک بے مقصد زندگی سے توجہ ہٹانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ تبدیلی لانے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوشش ہونی چاہیے۔ کوئی ایک شخص مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔
جواب دیں