جنوبی ایشیا امریکہ اور چین کے اسٹریٹجک مقابلے کےکھیل کا میدان بنا رہے گا: چیئرمین آئی پی ایس

جنوبی ایشیا امریکہ اور چین کے اسٹریٹجک مقابلے کےکھیل کا میدان بنا رہے گا: چیئرمین آئی پی ایس

چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن کو 9-12 نومبر 2023 کو سنٹر فار ساؤتھ ایشیا-ویسٹ چائنا کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، سیچوان یونیورسٹی، چنگدو ، چائنا کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس ‘چائنا-جنوبی ایشیا کوآپریشن اینڈ جیو پولیٹیکل چینجز’ میں شرکت اور پریزنٹیشن دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

کانفرنس کا مقصد چین اورجنوبی ایشیا کے درمیان تعلیمی تبادلوں کو بڑھانے اور دو طرفہ اور علاقائی مسائل کے بارے میں تفہیم و تحقیق کو فروغ دینا تھا۔

رحمٰن نے اپنی پریزنٹیشن بعنوان ’امریکہ-چین تعلقات کی ٹریجیکٹری اور جنوبی ایشیا‘ میں کہا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات پچھلے کچھ عرصے میں بین الاقوامی تعلقات کی شکل وضع کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہےہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان ایک اسٹریٹجک مقابلہ ہونا لازم و ملزوم تھا۔ تاہم مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب یہ مقابلہ معاشی، سیاسی اور تزویراتی عوامل کے باعث دشمنی میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا، جس نے ایک سرد جنگ جیسے منظر نامے کو جنم دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ اور چین دونوں دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں، تاہم ان کے اثر و رسوخ کی رفتار فطرت اور طریقہ کار  دونوں میں مختلف ہے۔ تاریخی طور پر امریکہ نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے جنگوں کو کلیدی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف بیجنگ دنیا پر اپنا اثر بڑھانے کے لیے باہمی کامیابی پر مبنی روڈمیپ کے ذریعے اقتصادی انضمام اور ترقی پر زور دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں ممالک کا آپس میں طاقت کا توازن ایک طرف، پر اس سے زیادہ اہم ان کے اپنائے گئے حکمت عملی اور طریقہ کار ہیں جو دنیا پر نمایاں اثرات مرتب کر رہے ہیں، اور جنوبی ایشیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں چین کو قابو کرنے کی کوشش میں امریکہ نے ہندوستان کو اپنے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کی امید میں اس کی ترقی میں مدد کرنا شروع کردی۔ تاہم قوی امکان ہے کہ یہ دونوں قابل ِاعتماد ساتھی  نہ بن سکیں گے کیونکہ ان کے علاقائی اور عالمی عزائم مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ چین کے ساتھ ہندوستان کی اپنی دلچسپی بھی وابستہ ہے اور نئی دہلی کبھی بھی اپنے پڑوسی کے ساتھ براہ راست فوجی تصادم نہیں چاہے گا۔

آخر میں رحمٰن نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگرچہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان عالمی اور دو طرفہ مسائل پر باہمی انحصار اور کبھی کبھار بات چیت عام طور پر جاری رہے گی،  البتّہ جنوبی ایشیا جیسے خطے دونوں کے لیے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کھیل کا میدان بنے رہیں گے۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے