حقیقی اثرات ‘امپیکٹ فیکٹر’ اور درجہ بندی سے بڑھ کر اہمیت کے حامل ہیں: چیئرمین ایچ ای سی کا پاکستان میں تحقیق اور اعلٰی تعلیم سے متعلق اظہارِخیال
ہائر ایجو کیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی تمام تر توجہ پاکستان میں اعلٰی تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے۔ ایچ ای سی اس امر کو یقینی بنانے کے لیئے کوشاں ہے کہ ملک میں ہونے والی علمی تحقیق قوم اور معاشرے کے لیئے یکساں فائدہ مند ہو۔ امپیکٹ فیکٹر اور درجہ بندی کی دوڑ میں شمولیت بے سود ہےجب تکہ علم کی تخلیق اور فروغ کے حقیقی اثرات مرتّب نہ ہوں۔
ان خیالات کا اظہار چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نےانسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) میں ۱۲ ستمبر ۲۰۱۷ کو منعقد ہونے والے سیمینار ‘پاکستان میں اعلیٰ تعلیم: موجودہ صورتحال، رجحانات اور امکانات’ میں اپنے خصوصی خطاب میں کیا۔ تقریب کا مقصد موجودہ تعلیمی صورتحال، ممکنہ مواقع اوراعلیٰ تعلیم کے شعبے کو درپیش مختلف چیلنجز کو زیرِبحث لانا اورایچ ای سی کی جانب سے ان مسائل کے حل کیلیئےاٹھائے جانے والےموثراقدامات اور حکمتِ عملی پر روشنی ڈالنا تھا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں سینیئر معلمین سمیت مختلف جامعات کےوائس چانسلروں، کلیہ جات اور شعبہ جات کے سربراہان اور اور ریسرچ سپروائزروں نے شرکت کی۔
اس موقع پرچیئرمین ایچ ای سی نے انکشاف کیا کہ ایچ ای سی مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں جاری 110 پی ایچ ڈی پروگرامزغیرمعیاری ہونے کے باعث بند کر چکاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی بااثرحلقوں کی جانب سے دباؤکے باوجود تعلیمی میدان میں ہونے والی کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے گزشتہ 15 سال کے دوران ایچ ای سی کی حاصل کردہ کامیابیوں کو بعض حلقوں کی جانب سے منفی طور پر متاثر کرنےکی کوششوں کی مزمت کی۔ ان کے مطابق ایچ ای سی کےصوبائی اداروں کاقیام، موجودہ شکل میں، ملک اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے خوش آئند عمل نہیں ہے۔
انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ سات برسوں پر محیط ایچ ای سی اور پاکستان انجینیئرنگ کونسل کی مشترکہ کاوششوں سے ایچ ای سی بین الاقوامی انجینیئرنگ ممبرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس ممبرشپ کے نتیجےمیں پاکستانی انجینیئرنگ گریجویٹس اضافی امتحان دیئےبغیر دنیا بھر میں کہیں بھی بحیثیت انجینئیر کام کر سکتےہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس نوعیت کی متعدد شراکت داریوں پر کام کر رہے ہیں اور ہماری ترجیح نمبروں کی دوڑ میں شمولیت کی بجائے پاکستان بھر میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ نمبروں کی کوئی معنویت نہیں اگر طالبعلم پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے کار آمد نہ ہو۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق گزشتہ برسوں میں مجموعی تعلیمی صورتحال بہترہوئی ہے۔ گزشتہ برس ۱۲ ہزار تحقیقی مضامین شائع ہوئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرقہ کے حوالے سے ایچ ای سی کی پالیسی نہایت سخت ہے اور اس ضمن میں کوئی جواز قابلِ قبول نہیں۔ ملک بھر میں ریسرچ کلچر کو فروغ حاصل ہوا ہے تاہم ۔مغربی تحقیقی معیار کا مقابلہ کرنے کے لئیےہمیں ابھی مزید کئی مراحل طے کرنا باقی ہیں-
ایچ ای سی کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۲۰۰۲ میں ایچ ای سی کے قیام سے قبل ملک بھر میں ۵۹ جامعات اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد قریبا دو لاکھ چھتّر ہزار تھی جو کہ اب بڑھ کر ۱۰۸۸ جامعات اور۱۳-۱۴ لاکھ طالب علموں تک جا پہنچی ہے۔ مزید براں مختلف جامعات سے ملحقہ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب ِعلموں کی تعداد ۳۰ لاکھ ہے۔ ریسرچ پبلیکیشنزکی تعداد ۸۵۰ سے بڑھ کر۱۲ ہزار مقالے سالانہ ہو چکی ہے۔ تاہم پی ایچ ڈی پروگرامز میں رجسٹرڈ طالبِ علموں کی مجموعی تعداد نسبتاً کم ہے جس کہ باعث موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر معیاری تحقیق ایک چیلنج ہے ایسے میں عالمی رینکنگ کا مقابلہ کرنا ایک مشکل امر ہے۔
ڈاکٹر مختار کا مزید کہنا تھا کہ دورِحاضر کے تعلیمی نظام میں اخلاقی تربیت کا فقدان ہے اس سلسلے میں اساتذہ کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے۔ اساتذہ کوچاہئیے کےوہ طالبعلموں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انکی تربیت کو بھی اپنا اولین شعار بنائیں تا کہ طالبعلم تعلیم کےحصول کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تربیت بھی حاصل کریں جو کےمتوازن شخصیت کی تعمیرکے لئیےانتہائی ضروری ہے۔
حال ہی میں جاری ہونے والی عالمی رینکنگز، جس میں دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات کی شائع کردہ فہرست میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے،کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ درجہ بندی کے حوالے سے دنیا بھر میں کئی ایسے نظام موجود ہیں جو کہ عالمی شہرت کے حامل ہیں اور جن کی متعین کردہ فہرست ہر سال تبدیل ہوتی ہے۔ ٹائمزکی جاری کردہ فہرست کے مطابق سال ۲۰۱۶میں ایک امریکی یونیورسٹی سرِفہرست تھی جبکہ ۲۰۱۷ میں یہی اعزاز برطانیہ کوحاصل ہوگیا۔ گزشتہ برس کل ۱۱ پاکستانی جامعات اس فہرست کاحصہ تھیں جن کی تعدادحالیہ برس گھٹ کرچار تک آپہنچی ہےجس سے ہرگزیہ مراد نہیں ہے کہ ان جامعات کے معیارِتعلیم میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹائمز کی جاری کردہ فہرست کسی مخصوص تعلیمی بنیادپر بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کرنے والی جامعات کی درجہ بندی پر مشتمل ہے۔
اس موقع پر ایگزیکٹو پریزیڈنٹ آئی پی ایس خالد رحمٰن نے بھی اظہارِخیال کیا۔
جواب دیں