حکومت کو کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے پروپیگنڈے کا واضح اور موثر جواب دینا چاہیے۔ آئ پی ایس کشمیر ورکنگ گروپ
حکومتِ پاکستان کو کشمیر پر سمجھوتہ کرنے سے متعلق بھیلائے جانے والے پروپیگںڈے کا فوری اور بھرپور جواب دینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسی افواہیں پھیلانے والے ملک دشمن عناصر اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے اپنے اس حالیہ بیان کے ذریعے کہ کشمیر کے معاملے پر کوئ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ایک مثبت پیغام دیا ہے اور حکومتِ وقت کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں ٹھوس اور عملی اقدامات کے ذریعے اس طرح کی تمام افواہوں اور خدشات کو غلط ثابت کرے۔
حکومتِ پاکستان کو کشمیر پر سمجھوتہ کرنے سے متعلق بھیلائے جانے والے پروپیگںڈے کا فوری اور بھرپور جواب دینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسی افواہیں پھیلانے والے ملک دشمن عناصر اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے اپنے اس حالیہ بیان کے ذریعے کہ کشمیر کے معاملے پر کوئ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا ایک مثبت پیغام دیا ہے اور حکومتِ وقت کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں ٹھوس اور عملی اقدامات کے ذریعے اس طرح کی تمام افواہوں اور خدشات کو غلط ثابت کرے۔
ان خیالات کا اظہار 24 دسمبر 2019 کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے کشمیر ورکنگ گروپ کے پانچویں اجلاس میں کیا گیا جس کا مقصد مقبوصہ کشمیر میں 5 اگست کے اقدامات کے بعد سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا جائزہ لینا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن کر رہے تھے جبکہ مقررین میں آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر سردار محمد انور خان، جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائیریکٹر راجہ سجاد خان، جموں و کشمیر کی سابق وزیر فرزانہ یعقوب، پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین، سینئیر صحافی اور ساوتھ ایشین براڈکاسٹ ایجنسی کے سربراہ شکیل ترابی، راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر امان اللّہ خان، ریسرچ سکالر محمد علی، اور بین القوامی قانون کے ماہر ایڈووکیٹ ناصر قادری شامل تھے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے شرکاء کا خیال تھا کہ پاکستان میں کشمیر پر پایا جانے والا اتفاقِ رائے ملک کا ایک اہم اثاثہ ہے جبکہ حکومت کو چاہیے کہ علماء اور سوسائیٹی کے دیگر طبقات کی مدد سے اس اتفاقِ رائے کو مزید مضبوط بنائے ۔ اس مقصد کے لیے سوچ سمجھ کر ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جسے میڈیا اور سفارت خانوں جیسے تمام میدانوں کا استعمال کرتے ہوئے باقی دنیا میں پھیلایا جائے۔
مقررین کا مزید خیال تھا کہ اس سلسلے میں اسلامی قانون کے ماہرین کی بھی مدد لینی چاہیے تاکہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے معاملے پر امّتِ مسلمہ کو بھی یکجا کیا جا سکے۔ مقررین کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے 5 اگست کے اقدامات نے یہ ایک موقع فراہم کیا ہے کہ جلسوں، آرٹ کی نُمائشوں، اور کانفرنسوں کے ذریعے متعلقین کو متحرک کیا جائے۔ اس کے ساتھ ان حالات میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں، طالب علموں، سِول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کے صارفین کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ ایک ایسی مضبوظ حکمتِ عملی تشکیل دیں جس کے ذریعے اس مسئلے کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مستقل مزاجی کے ساتھ موثر طریقے سے اجاگر کیا جا سکے۔ مقررین کا مزید خیال تھا کہ اس سلسلے میں دنیا میں پائے جانے والے ناقص طرزِ حکمرانی پر بھی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے جو کہ اصولوں اور انسانیت کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے بجائے طاقتوروں کے مفاد ات کو ترجیح دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ تخلیقی اور نِت نئے موثر انداز اپنا کر اپنا موقف واضح کیا جانا چاہئے۔
مقررین کے مطابق اس حوالے سے کشمیر کے مسئلے کو چھ طرح کے ذاویوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، جس میں نفسیاتی اور انسانی حقوق کا ذاویہ ، جس کے لیے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی این جی اوز اور انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشیر کے حالات پر تحقیق اور رپورٹس کی طباعت جاری رہے؛ سفارتی ذاویہ ، جس کے لیے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوانوں، میڈیا، تھنک ٹینکس اور علمی حلقوں کی مدد لی جائے، سیاسی ذاویہ ، جس کے لیے بھارت میں حالیہ اقدامات کے بعد مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو نمایاں کیا جائے؛ سماجی ذاویہ ،کہ جس کے ذریعے کشمیر کمیٹی مختلف متعلقین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرے، اور قانونی ذاویہ ، کی جس کے ذریعے متفرق بین الاقوامی قانون کے اداروں اور قوانین کو استعمال میں لایا جائے۔
کشمیر سے متعلق قانونی راستوں کو استعمال کرنے کی مثال دیتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ حال ہی میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے فلسطین کے علاقوں میں اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی جارحانہ کاروایئوں پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ ٹرائبونل نے اس معاملے پر فی الحال اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ریاستی مسئلے کو نظر انداز کر کے تحیقات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقررین کا خیال تھا کہ یہ کیس کشمیر کے معاملے پر ایک مثال کہ طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ کشمیر اور فلسطین دونوں مسئلے ایک ہی جیسے ہیں۔ پاکستان کے فارن آفس اور بیین الاقوامی قانون کے ماہرین کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی فارمز پر اِس تناظر میں پیش کریں۔ اسی سلسلے میں ایک اور مثال دیتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کی میانمار مین روہنگیا نسل کُشی کاکیس بھی گیمبیا نے ہیگ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں دائر کیا ہے جس کی پہلی سماعت اس مہینے کی آغاز میں ہو گئ ہے۔ اسکے علاوہ مقررین نے اقوامِ متحدہ کی ایسی کم از کم چار قراردادوں کا بھی حوالہ دیا جو مقبوضہ طاقتوں کے خلاف مسلّح جدودجہدکو جائز قرار دیتی ہیں۔
جواب دیں