خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ – ۲
گزشتہ بلاگ میں خودکشی کی کوشش پر سزا کے خاتمے اور اس کے ممکنہ نتائج پر بات کی گئ تھی۔ اس تحریر کے بعد متعدد نکات سامنے بھی آئے اور بعض افراد نے بھی ان کی جانب متوجہ کیا جو اس میں تشنہ رہ گئے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنی جان لینے کی کسی بھی فرد کی کوشش کو کسی ایک حوالے سے دیکھنا اور ہر طرح کے حالات پر یکساں حکم لگا دینا مناسب نہیں۔ یقینًا یہ معاملات دقّتِ نظر کے متقاضی ہیں۔ ۔ ۔
خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ – ۲
منیبہ راسخ
گزشتہ بلاگ میں میں نے خودکشی کی کوشش پر سزا کے خاتمے اور اس کے ممکنہ نتائج پر بات کی تھی۔ اس تحریر کے بعد متعدد نکات خود میرے سامنے بھی آئے اور بعض افراد نے بھی ان کی جانب متوجہ کیا جو اس میں تشنہ رہ گئے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنی جان لینے کی کسی بھی فرد کی کوشش کو کسی ایک حوالے سے دیکھنا اور ہر طرح کے حالات پر یکساں حکم لگا دینا مناسب نہیں۔ یقینًا یہ معاملات دقّتِ نظر کے متقاضی ہیں۔
عقلِ عام کی بنیاد پر اتنی بات واضح ہے کہ عام طور پر خودکشی انسان کسی شدید بے بسی اور مایوسی کی کیفیت میں یا غیرمعمولی طور پر محرومی کے عالم میں یا کسی غیرمعمولی تکلیف کی بناء پر کرتا ہے۔ ایک طرف یہ سوچ ہے کہ خودکشی کی کوشش کرنے والا شخص اصولًا ہمدردی کا مستحق ہےلہذا اس کوشش میں ناکامی کے بعد اسےسزا دینے کی بجائےاس کی کونسلنگ کا کوئی بندوبست کیا جانا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ خودکشی ناکام ہوجائے یا کامیاب، ہر دو صورتوں میں اس خاص مقدمے کے حالات کا جائزہ لے کر اس بات کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اس شخص کو خودکشی کے ارادہ تک پہنچانے کا موجب کون بنا؟ بالواسطہ تو پورا معاشرہ ذمہ دا ر قرار پانا چاہیے لیکن ہر کیس میں یہ تعیین ضروری ہے کہ براہ راست ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ کیا کسی نے اس سلسلے میں تحریک دلائی؟ کیا اس میں کوئی لالچ محرک بنا یا کسی کی جانب سے دی گئی تکلیف، بلیک میلنگ، جبر اور زیادتی اس کا سبب بنی؟ یا معاملہ کے پس ِمنظر میں کوئی نفسیاتی وجوہات ہیں۔ لہذا سوال یہ ہے کہ براہ ِراست اگرکوئی ذمہ دار ہے تو اس کو سزا دی جانی چاہیے یا نہیں؟
یوں خودکشی کا کوئی بھی واقعہ ہو تو اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی اپنی سب سے قیمتی چیز کو یوں ضائع کر رہا ہے۔ اور اس ضمن میں آئندہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کونسلنگ سمیت کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے اس مقام تک پہنچنے کی وجہ کیا ہے اور اس میں کون سے اسباب اور عوامل کارفرما ہیں؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ مختلف حالات میں ہمیشہ ایک ہی طرح کا مخصوص فیصلہ کرنا کس حد تک مفید ہے؟
ان متعدد اور پیچیدہ پہلوؤں سے میری تحقیق ابھی جاری ہے مگر اب تک کے مطالعہ سے جتنی بات سامنے آئی، سوچا اسے ضابطۂ تحریر میں لایا جائے۔ اس ضمن میں چند پہلو پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خودکشی کو جرم کیونکر سمجھا جائےکیونکہ اس سے نقصان کسی دوسرے فرد یا معاشرے کی نسبت خود یہ اقدام کرنے والے کا ہو رہا ہے۔ گزشتہ تحریر میں اس پر وضاحت سے بات ہو چکی ہے جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ انسان کی جان اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے لہذا یہ معاملہ انفرادی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ اس مختارِ کل خدا کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جیسے کسی دوسرے فردکی جان لینا حرام ہے،اسی طرح اپنی جان لینا بھی ایسا ہی ایک جرم ہے۔
یہ سوال کہ کیا جرم کے مرتکب کے ساتھ بہترین سلوک اسے سزا دینا ہی ہے یا اس کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا کچھ اور ہے، تقریباً ہر جرم کے حوالے سے اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس معاملے کو ہم جرم و سزا کے عمومی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ سزا سے متعلق مختلف نظریات (Theories of punishment) کی ذیل میں جو مباحث موجود ہیں ان میں اس نکتہ پر خاصی تفصیل موجود ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے جرم وسزا کے احکام سے بھی یہی اخذ کیا گیا ہے کہ سزا کے مقاصد چار طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اوّل تو Retribution ہےیعنی سزا کی نوعیت اور شدت جرم کے متناسب ہی ہونی چاہیے۔ گویا زیادتی کرنے والے کو حتی الامکان اسی قدر تکلیف دی جائے جتنی اس نے کسی دوسرے کو دی ہے۔ دوسرا مقصد آئندہ اس جرم کے ارتکاب کی راہ روکنا Deterrence ہےتاکہ جرم کا مرتکب آئندہ کے لیے محتاط ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے دلوں میں بھی خوف پیدا ہو سکے۔ سزا کا تیسرا مقصد اصلاح Reformation/rehabilitation ہےیعنی سزا کے انتخاب میں مقصود مجرم کی اصلاح ہو۔ اورPrevention سے مراد مجرم کو مزید جرم کرنے سے باز رکھنا ہے۔ جرم وسزا پر بحث کرنے والے ماہرین ان نظریات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ملا کر استعمال کرنے یعنی Integrative approach کو بہتر قرار دیتے ہیں تاکہ یہ تمام مقاصد بیک وقت اور حتی الامکان حاصل ہو سکیں۔
زیرِ غور پاکستانی قانون سے متعلق بات کرتے ہوئے جہاں دیگر پہلو اہم ہیں وہاں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے دور میں خودکشی کی کوشش کے بعد بچ جانے والے کے لیےکیا طرزِعمل اختیار کیا جاتا تھا اورکیا خود کشی کے مرتکب کسی فرد کو سزا دینے پر مکمل علمی اتفاق رائے ہے؟ اس موضوع پر دستیاب مواد سیر حاصل نہ تھا۔ اس تشنگی کے ازالہ کے لیےہم نے بعض اساتذہ اور تحریروں سے رجوع کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض قارئین اس حوالے سے ہماری رہنمائی کر سکیں۔
دینی روایت میں رسول اکرم ﷺ کا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کرنااور ایسے فرد کو جہنمی قرار دینا، جیسی روایات شامل ہیں۔ اس تناظر میں اقدامِ خودکشی کے مرتکب کو دیکھا جائے تو وہ مجرم ہے کیونکہ اس نے اپنی جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جو اس کی نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت تھی اور شریعت کے عمومی دلائل حتی المقدور جان بچانے پر زور دیتے ہیں نہ کہ اسے نقصان پہنچانے پر۔ خودکشی ایک ایسا فعل ہے جس کی شناعت احادیث سے ثابت ہے اور انسان کو کسی بھی جان کو نقصان پہنچانے کا حق نہیں دیا گیا کیونکہ یہ جان اللہ کی ملکیت اور امانت ہے لہذا اس میں خیانت کا جرم تو بہرحال موجود ہے۔ اس کی روشنی میں یہ کسی بھی حکومت یا پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ اس پر سزا کا تعین کرے اور وہ درج بالا تھیوریز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی سزا ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر جب مجرم کی شخصیت میں کوئی نفسیاتی الجھاؤ (Psychological disorder) بھی موجود ہو تو وہاں قانون کے مطابق علاج، بحالی و اصلاح وغیرہ کی بات کی جانی چاہیے۔
ہمارے مطالعہ کے دوران ابتدا ہی سےیہ نکتہ پیشِ نظر رہا کہ کیا ہر حرام چیز کو قانون کا حصہ بنا کر اس کے لیے سزا دینا ضروری ہے؟ کیا ضروری ہے کہ ہر معصیت کو جرم کہا جائے اوراس پر قانونی کارروائی ہو؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں عبد القادر عودہ شہید کی کتاب "اسلام کا فوجداری قانون” سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے مطابق اسلام کے فوجداری نظام میں کسی فعل کے جرم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت نے اس سے منع کیا ہو۔ وہ معصیت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ معصیت ہر وہ فعل ہے جس کا کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہو اور ہر اس فعل کا ترک ہے جس کا ترک شریعت نے حرام قرار دیا ہو،اوریہ امر متفق علیہ ہے کہ تعزیر ہر اس معصیت پر ہے جس پر شریعت کی جانب سے کوئی حد یا کفارہ مقرر نہ کیا گیا ہو، خواہ وہ معصیتِ الہی ہو یا ایسی کوئی معصیت جس کا اثر انسان پر پڑتا ہو۔
اس حوالے سے ایک عمومی سوچ یہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے تعزیراتی جرائم متعین نہیں کیے اور یہ فریضہ قاضی کے سپرد کردیا ہے۔ جب تعزیراتی جرائم اور ان کی عقوبات سے متعلق نصوص موجود نہیں ہیں تو شریعت کے عمومی مقاصد، تقاضوں اور مزاج کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مقننہ کو ان جرائم کی تفصیل اور ان کی سزا متعین کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم ولی الأمرایسے کسی فعل کو حلال نہیں کہہ سکتا جسے اللہ نے حرام کیا ہو اور نہ ہی جائز کہہ سکتا ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو۔ یعنی اہلِ اختیارکی حدود کی بات کی جائے تو انہیں تنفیذ اور تنظیم کے اختیارات تو حاصل ہیں مگر حلت و حرمت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جرم سرزد ہونے کے بعد حالات کے مطابق سزا کی تعیین، اس میں تخفیف یا معافی ایک الگ چیز ہے اور وقوعِ جرم سے پہلے ہی اسے معاف کردینا ایک جدا چیز۔ یعنی وقوعِ جرم سے قبل ہی اہلِ اختیار کا اسے معاف کر دینا، معافی نہیں بلکہ’جواز’ کہلائے گا۔ کیونکہ سزا میں تنفیذ و تنظیم کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب جرم سرزد ہو چکا ہو اور سزا کے اطلاق کا وقت ہوا چاہتا ہو۔ اب ایک ایسا کام جو عنداللہ حرام ہو، اسے جرائم کی فہرست سے ہی نکال دینا ،کیااسے جائز/حلال قرار دینے کے مترادف نہیں؟
خودکشی کا اقدام بالعموم کسی دوسرے فرد کے پیدا کردہ حالات کا مایوسانہ ردّعمل ہوتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کرنے والے فرد کے حوالے سے کیا کارروائی کی جائے گی۔ اس بارے میں عبد القادر عودہ شہید کہتے ہیں کہ خودکشی کی تحریم اس امر کی متقاضی ہے کہ اس جرم میں شریک بھی مستحقِ سزا گردانا جائے خواہ اس نے اس اقدام پر باقاعدہ مجبور کیا ہو یا اسکی جانب سے محض اتفاق و اعانت ہو۔ یعنی ان کے مطابق اقدامِ خودکشی میں شریک بھی تعزیری سزا کا مستحق ہے۔ اور ممکن ہے کہ اسے سزا دینے سے خودکشی سے ہونے والی اموات کی شرح میں بھی کمی آسکے۔
عبد القادر عودہ شہید کہتے ہیں کہ تعزیرات سے متعلق فقہاء کرام کی تحریروں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ شریعت نے ان افعال کی تحدید کردی ہے جنہیں اس نے معصیت کہا ہے اور وہ معصیت جس پر نہ حد ہو، نہ کفارہ، اس پر تعزیر کو صاحبِ اختیارکی رائے پر موقوف کردیا گیا ہے۔ اور صاحبِ اختیار کے اس اختیارِ تعزیر کے لیے اس فعل کا معصیتِ الٰہی ہونا شرط ہے۔ یعنی اگر وہ معصیت نہ ہو تو اس پر سزا کا جواز نہیں بنتا۔
عبدالقادر عودہ شہید کے مطابق تعزیر کی کم سے کم مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ یہ حاکم کی رائے پر منحصرہے کہ وہ جرم کی نوعیت اور مجرم کی حالت کے مطابق سزا کی جتنی بھی مقدار کی تعیین درست سمجھے، کر سکتا ہے۔
اس موقع پر پہلے سے موجود سزا کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ دیکھنا ضروری ہےکہ وہ مفید تھی بھی یا نہیں۔ کیونکہ یہ بات تو عام فہم ہے کہ کوئی بھی فرد خودکشی حالات سے تنگ آکر شدید مایوسی کے عالم میں کرتا ہےلیکن کیا ایک سال قید اس انسان کی بے بسی و لاچارگی کا حل ہے یا اس میں اضافے کا ساماں؟
یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں اس اقدام کے نفسیاتی پہلو پر بہت بحث کی گئی ہے اور اسے جرم کی بجائے ذہنی دباؤ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے لہذا اقدام کرنے والا بے گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ زیرِ غور بل [Criminal Laws (Amendment) Act, 2022] کے مطابق بھی چونکہ خودکشی کی کوشش کرنے والا کسی ڈپریشن، ذہنی بیماری یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے چنانچہ اسے سزا دینا درست نہیں کیونکہ ایک ذہنی مریض مجرم نہیں ہوتااور مریض سزا کا نہیں، علاج کا حقدار ہوتا ہے۔ لیکن رسول اکرمﷺ کا ایسا عمل کرنے والے کے ساتھ تعامل یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ فعل معصیت ہے اورعبدالقادر عودہ شہید کے نقطۂ نظرسے ہر معصیت جرم ہے اور ہرجرم کے خلاف قانون موجود رہنا چاہئے ورنہ اس کے گناہ یا جرم ہونے کا تصور بھی ختم ہو جائے گا۔ بہرحال اس حوالے سے ہماری تحقیق ابھی جاری ہے۔
اس ضمن میں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ قید کی سزا اپنے طور پر خود ایک بحث ہے کہ یہ اسلامی تعزیراتی سزا ہے یا نہیں اور کیا اسلام کے ابتدائی دور میں یہ محض فیصلہ آجانے کے عرصے تک مستعمل تھی یا باقاعدہ ایک سزا کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس موقع پر یہی حل مناسب معلوم ہوتا ہےکہ قاضی کو چاہیے کہ مجرم کے حالات کے مطابق سزا کا انتخاب کرے۔ یعنی جرم کرنے والے کے حالات اور ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے سزا کا تعین کیا جائے۔ لہذااس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
خودکشی کی کوشش کرنے والا شخص سزا کی نسبت ہمدردی و تعاون کا زیادہ مستحق ہے کیونکہ ایک صحت مند انسان عام حالات میں تو اپنی جان نہیں گنواتا۔ لہذایہ بالکل بجا ہے کہ اپنے حالات کے مطابق وہ تعاون کا مستحق ہے مگر اس کے لیےسزا کا خاتمہ کردینا مسائل کا حل نہیں ہے۔ سزا کو سرے سے ختم کرنا تو ایک فعلِ حرام کو حلال کہنے کے مترادف ہے جس کا اختیار صرف حاکمِ اعلیٰ یعنی اللہ کی ذات کے پاس ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے قانونی نظام میں کئی خرابیاں موجود ہیں اور آپشنز کی کمی کی وجہ سے ایک ہی قانون ہر طرح کے حالات میں سب پر لاگو کیا جاتا ہے۔ ہر جرم کے لیے سزا کے انتخاب میں تسدید [Deterrence] تو ملحوظ رہتی ہی ہے۔ ہاں سزا کس انداز میں دی جائے، اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اقدامِ خودکشی انتہائی ذہنی دباؤ میں کیا گیا ہےوہاں ری ہیبیلیٹیشن کا طریقہ متعارف کروایا جائے۔ سزا کے انتخاب کے بعد بھی حاکم کے پاس حالات و واقعات کی مناسبت سے سزا میں معافی یاتخفیف کا اختیار موجود رہتا ہے۔ اس معافی اور تخفیف کے ذیل میں پھر کونسلنگ اور دیگر طریقے آجاتے ہیں جنہیں معقول سزا کے موجود رہتے ہوئے بالکل اختیار کیا جا سکتا ہے مگر جرائم کی روک تھام کے لیے قانون میں سزا کی موجودگی کی ضرورت سے انکار کرنا دانشمندی نہیں اور نہ ہی ان پیچیدہ مسائل کا حل ہے۔ اس حوالے سے تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہےکہ اس جرم کے پیچھے کون سے عوامل اور افراد کار فرما تھے اور اگر ایسا کوئی فرد تحقیق کے نتیجے میں سامنے آ جائے تو اس کو مناسب سزا دی جانی چاہیے۔
جواب دیں