خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ -۳

خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ -۳

خودکشی کی کوشش پر سزا کا خاتمہ -۳

منیبہ راسخ

خودکشی کی کوشش پر سزا کے خاتمے کے قانون سے متعلق تحقیق شروع کی توابتدا ہی سے یہ خیال تھا کہ چونکہ یہ معاملہ بحث طلب ہے لہذا کسی ایک پہلو سے اسے سمجھنا ناکافی ہوگا۔ اس بارے میں آئی پی ایس کے رفقاء کار سے مشورہ کیا تو ان کا خیال تھا کہ مختلف شعبوں کےماہرین سےان کی رائے معلوم کرلی جائے تاکہ معاملہ کو مختلف زاویوں سے سمجھا جاسکے اور معاملہ فہمی میں آسانی ہو۔ جن اساتذہ کے جواب موصول ہو سکے ان کی آراء کا خلاصہ ہم اس بلاگ میں یکجا کر رہے ہیں۔

یہ اچھا ہوگا کہ قارئین ان کی رائے جاننے سے قبل ایک مرتبہ گزشتہ بلاگ میں مذکور  سوالات پر نگاہ ڈال لیں۔ ان حضرات کی رائے معمولی سے فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسی ہی تھی جس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

سب سے پہلے ہم نے دینی اصول اور مسلمانوں کے معاشرتی اصول جاننے کے لیے احادیث سے رجوع کیا۔ ایسی بیشتر روایات نہ صرف موجود بلکہ معروف بھی ہیں جن میں خودکشی پر سخت وعید اور رسالت مآب ﷺ کی جانب سے خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ میں ذاتی شرکت سے اجتناب کا ثبوت ملتا ہے، مگر دورِ نبوی میں ایسا کوئی واقعہ نہ مل سکا جس میں خودکشی کا اقدام کرنے پربچ جانے والے کے لیے کوئی تدبیر اختیار کی گئی ہو۔ تلاشِ بسیار کے بعد ماہرعلومِ حدیث عامر حسن وقار صاحب سے اس بابت دریافت کیا۔ انہوں نے بھی اس بات کی تائید کی کہ خودکشی کی ناکام کوشش کے حوالے سے کوئی حدیث یا صحابہ کے طرزِ عمل سے متعلق کوئی روایت ان کے علم میں بھی نہیں۔

ایک عمومی سوال یہ تھا کہ کیا خودکشی کے مرتکب کے لیے معافی کی کوئی صورت ہے؟ اس حوالے سے کئی فتاویٰ نظر سے گزرے جن میں خودکشی کے بعد بچ جانے والے اور اس عمل پر شرمندہ شخص کے لیے توبہ و استغفار کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح مکتبہ شاملہ میں موجود ایک فتویٰ میں یہ ہے کہ خودکشی کی نیت سے زہر کھانے والا فرد اگرچہ اس حدیث کے عموم میں شامل نہیں جس کے مطابق خودکش انسان کو اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کے فعل کی تکلیف سے بار بار گزارا جائے گا، لیکن اس کا خودکشی کی نیت سے زہر کھانا گناہِ کبیرہ ضرور ہے۔[1]دارالعلوم دیوبند کے ایک فتویٰ کے مطابق اس صورت میں خودکشی کا گناہ تو نہیں ہوگا مگر اس پر عزم بالجزم کا گناہ بہرحال ہوگا۔[2]

یعنی یہ تو معلوم ہوگیا کہ خودکشی کے ارادے پر جب عمل کرلیا تو اس کا شمار معصیت میں ہوگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر معصیت کو جرم کے زمرے میں لا کر اس پر قانون لاگو کیا جانا چاہیے؟ اس حوالے سے غامدی مکتبۂ فکر سے وابستہ ڈاکٹر عرفان شہزاد کی رائے ہے کہ خودکشی کا معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے۔ ان کے نزدیک کوئی فعل اس وقت جرم قرار پاتا ہے جب اس سے کسی دوسرے فرد کی حق تلفی ہوتی ہو۔چونکہ خودکش شخص بنیادی طور پر اپنے ساتھ ہی ظلم کر رہا ہے لہٰذا یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور جرم نہیں ہے۔ اس بارے میں پہلے بحث ہو چکی تھی اور ہم نے عبدالقادر عودہ شہید کا یہ نکتہ قلم بند کیا تھا کہ ہر معصیت جرم اور زیادتی ہے چاہے اس کا نقصان انسان کی اپنی ذات کو پہنچے یا دیگر افرادِ معاشرہ کو۔ اس اصول کی دلیل یہ ہے کہ انسان کی جان ذاتی اور کسبی نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت  ہے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے جوابدہ ہے تو اس میں خیانت کو تو بہرحال جرم ہی کہا جائے گا۔ اور ہر کبیرہ گناہ کو جرم قرار دے کر اس پر تعزیر کے نفاذ سے مقصود اس بات کا اظہار ہےکہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی ایک جرم ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ایسے عمل کرنے والے کا جنازہ پڑھنے سے انکار  شدید ناپسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے، جو اس فعل سے متعلق ایک دنیاوی طرزِ عمل ہے اور اس جانب دلالت کرتا ہے کہ یہ فعل ایک جرم ہے۔

اس سوال پر کہ کیا اس عمل کا موجب بننے والے افراد یعنی جن کی وجہ سے ایک شخص یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے، مستحقِ سزا ہوں گے؟ اسلامیہ کالج پشاور سے وابستہ ڈاکٹر رئیس گل صاحب اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی مدرّسہ محترمہ غزالہ غالب کا کہنا تھا کہ اگر ایسے فرد یا افراد کا حتمی تعین ممکن ہو جن کے پیدا کردہ دباؤ یا حالات نے کسی فرد کو خود کشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کیا ہے تو ان کے حصے کے بقدر انہیں سزا دی جانی چاہیے کیونکہ کسی کو اس حد تک بے بس و مجبور کردینا کہ وہ خودکشی جیسے سنگین عمل کا ارتکاب کر بیٹھے، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

غزالہ غالب صاحبہ کے علاوہ دیگر کا خیال تھا کہ خودکشی کے اسباب و وجوہات کے پیشِ نظر  پہلے سے موجود قید کی سزا کو ختم کرنا حکومتِ وقت کی طرف سے ایک اچھا اقدام ہے۔ ان وجوہات کا تعلق فرد کی ذات سے بھی ہو سکتا ہے اورمعاشرے سے بھی، اور پسِ پردہ کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ان کا موقف تھا کہ خودکشی کا اقدام کرنے والے شخص کو قیدوبند اور دیگر سزاؤں سے گزارنا انصاف کے منافی تھا۔

خودکشی کی کوشش ناکام ہونے کی صورت سے متعلق ہم نے جو ابتدائی مطالعہ یا گفتگو کی ہے، اس کی روشنی میں ایک غیر حتمی رائے یہ بنی ہے کہ اس فعل کے خلاف قانون بہرحال موجود رہنا چاہئے ورنہ اس کے گناہ یا جرم ہونے کا تصور بھی ختم ہو جائے گا۔ ہم نے مختلف مکاتبِ فکرکے نمایاں اداروں کو استفتاء بھیج رکھے ہیں اور ان کی آراء کے منتظر ہیں۔ امید ہے کہ ان فتاویٰ کی روشنی میں بہتر رائے قائم ہو سکے گی۔ تاہم صرف سزا کا اطلاق ناکافی بلکہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ مسئلہ زیرِ بحث کو ایک مناسب سزا کے موجود رہتے ہوئےمسلمہ اخلاقی اقدار، نفسیات اور سماجیات کے تناظر میں حل کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے ایک اہم کام ان سماجی وجوہات کا تعین ہے جن کی وجہ سے کوئی فرد خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ان وجوہات میں سے کچھ کی جڑیں فرد کی شخصیت کے اندر بھی ہوسکتی ہیں مگر ان کی کوئی نہ کوئی کڑی لازماً معاشرے اور اردگرد کے افراد سے مل رہی ہوتی ہے۔ کسی خاص صورتِ حال میں یا عمومی طور پر ان وجوہات کا جائزہ لینا اور متاثر فرد کی بحالی اور معاشرے میں شمولیت کے لیے جملہ کوششیں بروئے کار لانا لازمی ہے۔

ضروری ہے کہ اقدامِ خودکشی کے مرتکب فرد کی شخصیت کا ہمہ پہلو جائزہ لیا جائے اور اس کی شخصیت میں جہاں کہیں کوئی پیچیدگی ہو یا جس نوعیت کے سماجی یا معاشی دباؤ کا اس پر اثر ہو، اس کے حل کے لیے اس شخص سے منسلک ہر فرد کوشش کرے۔ بصورتِ دیگر کچھ بعید نہیں کہ کسی دوسرے موقع پر وہ اسی کوشش کا اعادہ کرے۔ لہذا فرد پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے خاص تناظر میں یہ ضروری ہے کہ انسانوں کی اپنے خالق اور دیگر افراد و حالات کے حوالے سے سوچ کی تشکیل کرنے والے عقائد کو اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے کہ اللہ کی تقدیر اور بے پناہ رحم پر یقین بڑھ جائے، امید اور توکل زندگی کا عام طرزِ عمل قرار پائے، خود اپنے حوالے سے اور دیگر افراد کے لیے طرزِ فکر اورعمل میں آخرت کی جوابدہی کا احساس رگ و پے میں اتر جائے۔

ریاست اور معاشرے کا یہ عمومی فرض ہے کہ دستورِ پاکستان کی تمہید میں جس عدلِ اجتماعی کا ذکر ہے، اس کو یوں بروئے کار لایا جائے کہ کوئی فرد تنہا اور بے کس نہ رہے۔ اگر ریاست رعایا کی کفیل ہو کر ان کی بنیادی ضروریات پوری کرے تو حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی اموات کی شرح میں بالیقین کمی آ سکے گی۔

پارلیمان نے خودکشی کی سزا ختم کرنے کا ایک جواز یہ دیا ہے کہ خودکشی کی وجہ سے ہونے والی شرحِ اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس قانون کو ختم کردینے سے اس شرح میں کمی واقع ہو گی یا پھر deterrence بھی ختم ہو جانے سے اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا؟ اس پیچیدہ مسئلے کا حل کسی نمائشی اقدام میں نہیں بلکہ ہمہ جہتی باقاعدہ اقدامات اور عمومی رویوں کی تشکیل میں ہے۔

اس حوالے سے خاندان، مساجد، مدارس، عصری تعلیمی مراکز اور دیگر اداروں کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ان اداروں میں افراد کی تربیت اس ڈگر پر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی جان، صلاحیتوں، اوقات اور وسائل کو ایک مقدس امانت سمجھیں۔ یہ تربیت اس نہج پر ہو کہ ان کے اندر جو مثبت تخلیقی، پیداواری اور تعمیری صلاحیتیں ہیں وہ ابھر کر سامنے آسکیں اور انہیں مشکلات میں جینے اور اپنے لیے راہ تلاش کرنے کا اعتماد مل سکے۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ قانون اعتماد و حوصلہ فراہم کرنے کی بجائے مصائبِ زندگی سے راہِ فرار اختیار کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی غیر فطری تدابیر کی راہ ہموار کررہا ہو۔ سزا کو اس طرح ختم کرنا ایک پہلا قدم ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ”قتل بہ جذبہ رحم“ کو  بھی قانوناً جائز قرار دے دیا جائے گا اور یوں تباہی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

ہمارےخیال میں منظور کردہ یہ بل ان تمام مسائل میں اضافے کا ساماں ہے۔ اگر خدائے بزرگ و برتر کو حاکمِ اعلیٰ خیال کرتے ہوئے قوانین نافذ کیے جائیں تو تمام تر معاشرتی ونفسیاتی تقاضوں کوبہترطریقےسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قانون کا نفاذ ہی انسان کو ہر طرح کی مشکلات سے نجات دلا کر اسے فطری حدود کے اندر رہتے ہوئے آسانی فراہم کرسکتا ہے۔

ایسے قوانین کو سرے سے ختم کرنے کی بجائے باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت انہیں موجود رہنے دینا چاہیے۔ یہ نکتہ ابتدا میں رقم کیا تھا کہ مجنون کے مکلف ہونے کے لیے شریعت میں باقاعدہ احکامات موجود ہیں لہذا سزا کے خاتمے کے لیےیہ دلیل بن نہیں سکتی کہ سزا مجرم کے لیے ہوتی ہے، مریض کے لیے نہیں۔ نیز سزا کو جڑ سے ختم کرنے کی بجائے پہلے سے موجود سزا پر نظرِ ثانی کی جانی چاہیے تھی۔ سزا کس انداز میں دی جائے، اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے بھی باقاعدہ حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور مسائل کو حل کیا جائے تا کہ اس فرد کے درد کا حقیقتاً درماں ہوسکے۔

اس سلسلے کی گزشتہ تحریر میں سزا کے انتخاب میں حاکم کے اختیارات کی بات ہوئی تھی کہ سزا کے انتخاب کے بعد بھی حاکم کے پاس حالات و واقعات کی مناسبت سے سزا میں معافی یاتخفیف کا اختیار موجود رہتا ہے مگر حلت و حرمت صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس معافی اور تخفیف کے تحت پھر کونسلنگ اور دیگر طریقے آجاتے ہیں جنہیں معقول سزا کے موجود رہتے ہوئے بالکل اختیار کیا جا سکتا ہے مگر جرائم کی روک تھام کے لیے قانون میں سزا کی موجودگی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر ان پیچیدہ مسائل کا حل نہ ہو پائے گا۔

اس حوالے سے تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جرم کے پیچھے کون سے عوامل اور افراد کار فرما تھے اور اگر ایسا کوئی فرد تحقیق کے نتیجے میں سامنے آ جائے تو اس کو اس جرم میں معاونت یا حصے کے بقدر مناسب سزا دی جانی چاہیے۔ سزا کا انتخاب جرم و سزا کی تھیوریز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر مقدمے کے مختلف پہلوؤں کو جانچنے کے بعد کرنا چاہیے۔

کیا مذکورہ بالا تمام پہلوؤں سے غور کرنےکے بعد اب بھی اس بل کا مقصد ان بے بس لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہی کو سمجھا جائے گا؟ مختلف قوانین میں مسلسل اسی نوعیت کی ترامیم اور تناسیخ کا ہونا لمحۂ فکریہ ہے جن سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ انسان کی ذات پر سب سے زیادہ حق اس کا اپنا ہے اور وہی اپنے جسم و جاں کا مالک ہے۔

[1] https://shamela.ws/book/8381/16882

[2] https://darulifta-deoband.com/home/ur/others/61711

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے