دو روزہ قومی میڈیا ورکشاپ | تشدّد، مسلح تصادم اور قدرتی آفات میں صحافت – برائے مدیرانِ دینی جرائد
مسلح تصادم، تشدد اور قدرتی آفات کی رپورٹنگ اور تجزیہ کرنے والےدینی جرائد کے مدیران کی صلاحیتوں اور استعدادِ کار کو بہتر بنانے کے غرض سے 6-7 اکتوبر 2022 کو مری کے ایک نجی ہوٹل میں ‘تشدّد، مسلح تصادم اور قدرتی آفات میں صحافت – برائے مدیرانِ دینی جرائد’ کے عنوان سے ایک دو روزہ قومی میڈیا ورکشاپ’ آئی پی ایس اور انٹرنیشنل کمیٹی آف سی ریڈ کراس کے اشتراک سے منعقد کی گئی۔
پہلے سیشن میں تقریب کے شرکاء کا باہمی تعارف شامل تھا، اس کے بعد آئی سی آر سی کے اسلامی قانون اور فقہ کے علاقائی مشیر ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی اور یونیورسٹی آف ہری پور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کامران اعظم کے لیکچرز شامل تھے۔ ڈاکٹر رحمانی نے انسانی آفات اور انسانی اصولوں پر ایک بصیرت انگیز گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر کامران اعظم نے انسانی آفات کی شکلوں اور اس کی حساسیت کے بارے میں بات کی۔
میرپور یونیورسٹی آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ قانون کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے سامعین کو جنگ کے اسلامی قانون کے تناظر میں بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی ہمدردی کے اصولوں سے آگاہ کیا۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے اعظم خان نے متاثرہ اور جنگ زدہ علاقوں میں فیلڈ رپورٹنگ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے زور دیا کہ اسلامی رسالوں کو جدید آلات اور رپورٹنگ کے آداب سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔
شرکاء کے لیے "انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اور بنیادی اصول” کے موضوع پر ایک اسٹڈی سرکل بھی منعقد کیا گیا۔ ہیلپنگ ہینڈز فار ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ کے ایک سماجی کارکن عارف خلیل نے اس سیشن کا انعقاد کیا اور سامعین کو ان بنیادی اصولوں کے بارے میں روشناس کرایا جن کی پیروی انسانی ہمدردی کے گروپ کرتے ہیں۔
عملی صحافت کے بارے میں اپنی بصیرت کا اشتراک کرتے ہوئے، ضرار خان، جو صحافت کے ایک تجربہ کار استاد اور خود ایک رپورٹر ہیں، نے مثالیں پیش کیں کہ انسانی حالات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے، اور اداریے، کالم اور مضامین لکھتے ہوئے جذبات کو کس طرح الگ رکھا جانا چاہیے۔
ورکشاپ کے دوسرے روز نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر فیض اللہ خان اور معروف میڈیا گروپ کے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ رپورٹر وقار بھٹی نے قدرتی آفات کے دوران صحت کے مسائل سمیت صحافت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔
ورکشاپ کے اختتام پر چئیرمین آئ پی ایس خالد رحمٰن نے نشاندہی کی کہ صحافت میں ایک کمیونیکیشن گیپ ہے جو وصول کنندگان کو مطلوبہ معلومات یا پیغام حاصل کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے، جس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں اور تقسیم ہوتی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ الحاد دنیا بھر میں دوسرا سب سے تیزی سے بڑھنے والا گروہ ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلامی صحافت میں اس خلا کو پُر کرنے کے لیے یہ خاص طور پر اہم ہے کہ پیغام کو زیادہ سے زیادہ موثر رکھنے اور اس کے مطلوبہ سامعین تک پہنچنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان کمزوریوں کو دور کیا جائے۔
جواب دیں