ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی مشاورت
ذریعہ تعلیم سے متعلق قومی مشاورت
خالد رحمٰن – ایگزیکیٹو پریزیڈنٹ ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈ یز ، اسلام آباد
نظام تعلیم کی یکسانیت ان دنوں حکومتی پارٹی کے منشور اور وزیر اعظم اور وزیر تعلیم کے بیانات کی روشنی میں بجا طور پر پر علمی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اصولی طور پر تو اس مسئلہ کو بہت پہلے طے ہو جانا چاہیے تھا لیکن بعض مخصوص طبقات کے مفادات کے ٹکراؤ نے اسے ایک حسا س مسئلہ بنا دیا ہے۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران اس حوالہ سے کسی قدر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
اسی ضمن میں قومی سطح پر ایک مشاورت 16 جولائی کو منعقد ہوئی۔ مشاورت میں اسلام آباد،صوبائی حکومتوں، آزادکشمیر ،گلگت بلتستان کی حکومتوں سے سیکرٹری تعلیم یا ان کے نمائندوں کے علاوہ بعض نجی تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے نمائندے بھی شریک تھے۔ جبکہ ماہرین تعلیم کی بھی ایک نمایاں تعداد نے شرکت کی۔
مشاورتی اجلاس کے لیے جو تعارفی نوٹ جاری کیاگیا تھا اس کے مطابق اس مجلس کے ایجنڈے میں پرائمری تک کی کلاسوں کے لیے ذریعہ تعلیم زیر بحث آنا تھا اور اسی ضمن میں ان کلاسوں میں تدریسی زبان کے علاوہ کتب کی زبان زیربحث آنی تھی۔ تعارفی نوٹ میں ایک چارٹ کی صورت میں تجویز دی گئی تھی کی اردو، اسلامیات/اخلاقیات اور معاشرتی علوم کے علاوہ بقیہ مضامین کی تدریس انگریزی میں ہوگی۔
وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود کے مختصر تعارفی کلمات اور بعدازاں جناب جاوید جبار ، جو وزارت تعلیم کی جانب سے اسی ضمن میں بنائی گئی ٹیکنیکل کمیٹی کے چیئرمین ہیں، کی ابتدائی گفتگو کے بعد شرکاء مجلس کو گفتگو کی دعوت دی گئی جن کی 80فیصد تعداد آن لائن شرکت کررہی تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس خوشی اور اطمینان کا اظہار ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے کچھ مسائل سے قطع نظر یہ مشاورت بہت اچھے ماحول میں منعقد ہوئی،جس کا کریڈٹ وزارت کے ذمہ داران کوضرو ر دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اس اطمینان کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ایک آدھ استثنا کے ساتھ متنوع پس منظر اور مختلف علاقو ں سے تعلق کے باوجود ان ماہرین میں اس پر اتفاق پایا گیا کہ پرائمری اور اس سے نچلی سطح پر ذریعہ تعلیم اردو یا مقامی زبان ہو نا چا ئیے۔ اس ضمن میں بہت ہی اہم اور موئثر دلائل شرکاء کی جانب سے دیے گئے جبکہ تعلیمی عمل سے براہِ راست منسلک افراد نے بہت وضاحت سے اپنے تجربات بیان کیے۔ یہ مفید بحث اس قابل ہے کہ عام لوگوں کی آ گہی کے لیے وزارت تعلیم اس کی وسیع تر دائرے میں اشاعت پر غور کرے۔
راقم کو ماہرِ تعلیم ہو نے کا دعو یٰ نہیں لیکن سالہا سال سے تعلیم سمیت پالیسی امور پر براہِ راست اور بالواسطہ شرکت سے حاصل شدہ تجربہ، سوچ، اپنے مطالعہ اور معلومات کی روشنی میں میں نے اس نشست میں گفتگو کرتے ہوئے آٹھ اہم نکات پر زور دیا۔
اول یہ کہ ہر کام کا ایک سیاق وسباق ہوتا ہے اسے نظرانداز کرکے کتنے ہی خوبصورت الفاظ اور استعاروں کاسہارا لیا جائے، ان کی تعبیر میں اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے جس سےعملدرآمد کے دائرے میں بھی اختلافات جنم لیتے ہیں۔ ذریعہ تعلیم کی یکسانیت کے ضمن میں دستور پاکستان کی دفعہ ۲۵۱ میں اردو زبان کے استعمال اور نفاذ کی طرف پیش قدمی/ ٹرانزیشن کی ہدایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ دستور کو سیاق وسباق بنانے سے یکسانیت پیدا کرنے کی اس پوری مشق کو ایک احترام اور تقدس حاصل ہو جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی ایک گروہ کی خواہش کی بجائے قومی اتفاق رائے کی علامت قرار پائے گی اور ایک مسلسل عمل کو لازم بنائے گی۔
اس کے ساتھ ہی اردو زبان کے لازمی استعمال کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلہ کو ، نیز ابتدائی درجوں میں مادری یا ماحول کی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے لیے ماہرین کے درمیان موجود اتفاق رائے کو سیاق وسباق کا حصہ بنانے پر زور دیا۔ اس اتفاقِ رائے کے ثبوت کے طور پر خود برِٹش کونسل کی 2017 کی رپورٹ سے ایک اقتباس پیش کیا گیا جس میں واضح طور پران کی اس رائے اور پالیسی کا ذکرہے کہ پرائمری سطح پر مادری/مقامی یا ماحول کی زبان تدریس کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ گفتگو میں اس امر کی بھی نشان دہی کی گئی کہ دنیا سے رابطہ اور ترقی کے لیےانگریزی زبان ضروری ہے کی دلیل نہایت کمزور اور سطحی ہے۔ اقوام متحدہ میں سرکاری طور پر چھ زبانیں رائج ہیں اور اس وقت دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کی کوئی بھی فہرست بنائی جائے تو متعدد ایسے ممالک سرفہرست نظر آتے ہیں جن میں انگریزی محض ایک غیرملکی زبان ہے اور ثانوی حیثیت میں پڑھائی جاتی ہے۔ چنا ںچہ یہ واضح رہنا چا ئَیے کہ دنیا سے رابطہ اور ترقی کے لیے انگریزی واحد ذریعہ نہیں ہے۔
دوم یہ کہ اردو زبان کی بھی محض رسمی تدریس کافی نہیں بلکہ اس میں اعلی مہارت کا حصول پیش نظر رہنا چاہیے۔ اسی طرح اعلی درجوں کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے انگریزی کی مہارت بھی یقینی بنانا چاہیے ۔ تاہم راقم نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ایسے طلبہ و طالبات جو اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہوں، ان کے لیے کسی بھی ایک دیگر غیرملکی زبان میں ضروری مہارت کو ممکن بنانے کی جانب بھی حسبِ موقع پیش رفت کرنی چاہیے۔
سوم یہ کہ ذریعہ تعلیم کسی بھی صورت میں مادری/مقامی/ اردو کے علاوہ نہیں ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ اسے موضوع بحث بنانا بھی درست نہیں ہے۔ چہارم یہ کہ اصل میں تو امتحان اور جائزہ کا نظام یکساں ہونا ضروری ہے ۔ اگر جائزہ کے کسی مخصوص نظام کو’ اشرافیہ’ کا درجہ حاصل ہوجائے تو یکساں نظام تعلیم کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ پنجم یہ کہ ماحول، مواقع اور وسائل کے ضمن میں بھی یکسانیت کے بغیر یکسانیت کا دعوی بے معنی ہے۔
چھٹا نکتہ ریاضی اور سائنس کے مضامین کی کتب سے متعلق تھا۔ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے درج ذیل پیرائے میں بات کی:جب ہم نے ذریعہ تعلیم کے بارے میں طے کردیا کہ مقامی /مادری/ ماحول کی زبان یا اردو زبان میں تعلیم ہورہی ہوگی تو ان زبانوں سے تو اردو کاکوئی جھگڑا نہیں رہا ۔ سوچنے کی بات یہ رہ گئی کہ [اردو یا انگریزی میں سے] کس زبان میں بہ آسانی [اور معیاری] کتاب دستیاب ہوگی اور ٹرانزیشن کا ایک پراسیس چل سکے گا اور میں اس میں بڑی حدتک اوپن ہوں ۔ درس و تدریس کی زبان کے بارے میں بحرحال کسی بھی طرح گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات اس سیاق وسباق میں تھی کہ جناب جاوید جبار کی ابتدائی گفتگو میں کہا گیا تھا کہ اردوکے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں اپنی اپنی زبان میں تدریس پر کوئی اختلاف نہیں ہے چنانچہ راقم کا مدعا اس سوال کو اٹھانا تھا کہ اب اگر تدریس کی زبان پر اختلاف نہیں ہے توسوال صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ مادری یا اردو زبان میں تدریس کے دوران طلبہ کے لیے کون سی کتاب آسان ہوگی -اردو یا انگریزی؟ اور اس موضوع پر بحث پہلے نکتہ میں دیے گئے سیاق وسباق کے تناظر میں آگے بڑھنی چاہیے، یعنی جس سے دستوری ہدایت کے مطابق ‘اردو کے سرکاری و دیگر مقاصد کے لیے ‘ استعمال کی جانب پیش قدمی ہو ۔
ساتواں نکتہ بعض شرکاء کی جانب سے پیش کردہ اس تاثر کی تردید پر مبنی تھا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم والے اداروں میں تنقیدی اور آزادانہ سوچ کی حوصلہ افزائی کا موقعہ ملتا ہے ۔ اس حقیقت پر زور دیا گیا کہ اس کا تعلق ذریعہ تعلیم سے نہیں ہے بلکہ طرقِ تدریس اور استاد کے کردار سے ہے۔ اسی تسلسل میں آٹھویں اور اہم ترین نکتہ میں زور دیا گیا کہ یکساں نظام تعلیم کے ضمن میں کسی بھی کوشش کو ‘مقاصد تعلیم کی یکسانیت’ اور اسی پس منظر میں استاد کی تربیت کے ساتھ جوڑ ے رکھنا ضروری ہے۔ اور مقاصد تعلیم کیا ہوں اس ضمن میں خود شناسی، خدا شناسی اور خلق شناسی کے تصورات کی جانب نشاندہی کرتے ہوے واضح کیا گیا کہ محض روزگار اور ملازمت کی صلاحیت کا حصول بہت ہی ادنیٰ ٰمقصد ہے۔
توقع کی جانی چایئے کہ وزارت تعلیم اس اہم اور نہایت حساس قومی مسئلہ پر قومی امنگو ں کے مطابق جامع اور موئثر اقدامات کرنے میں کامیاب ہو گی۔
جواب دیں