روہنگیا نسل کشی: بین الاقوامی اخلاقی اور قانونی عزم کا امتحان، ماہرین
روہنگیا نسل کشی، جو نسلی بالادستی پر مبنی قوم پرستی میں جڑیں رکھتی ہے، قانونی احتساب کی متقاضی ہے: ماہرین
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ایک منظم مہم ہے جو بدھ مت کی انتہا پسندی، نسلی بالادستی کے تصور، اور روہنگیا شناخت کے انکار پر مبنی ہے۔ اس پیمانے پر ہونے والے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے اخلاقی جرات، مضبوط قانونی ڈھانچے، اور عالمی سطح پر یکجہتی کے ساتھ ردعمل کی ضرورت ہے۔ یہ بحران بین الاقوامی برادری کے اخلاقی اور قانونی عزم کا ایک کڑا امتحان ہے۔ انصاف صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عالمی دباؤ برقرار رکھا جائے، مکمل اور غیر جانب دار دستاویزات تیار کی جائیں، اور جامع سیاسی اصلاحات عمل میں لائی جائیں۔
یہ بات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے زیر اہتمام۳۰ اپریل ۲۰۲۵ کو منعقدہ سیمینار بعنوان "بدھ مت، روہنگیا اور نسل کشی: بنیادی خلیجیں اور ممکنہ مثبت پہلو" میں کہی گئی۔ سیمینار کے مقررین میں میانمار سے تعلق رکھنے والے محقق اور انسانی حقوق کے علمبردار کلیدی مقرر ڈاکٹر زارنی، سینئر وکیل اور ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے بانی صدر احمر بلال صوفی، سابق وفاقی سیکرٹری سید ابو احمد عاکف، اور آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان شامل تھے۔
ڈاکٹر زارنی نے نسل کشی کی بنیادی وجہ میانمار میں گہرائی سے جمی ہوئی بدھ مت کی انتہا پسندی کو قرار دیا، جہاں بدھ مت کے ماننے والے ریاستی اداروں پر حاوی ہیں اور مذہبی اقلیتوں کو بنیادی حقوق اور احترام سے محروم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ریاستی سطح پر روہنگیا شناخت کا انکار کیا جاتا ہے، لیکن بین الاقوامی قانون اس شناخت کو تسلیم کرتا ہے۔ 1982 کے شہریت قانون نے روہنگیا کو عملی طور پر بے ریاست کر دیا ہے۔
انہوں نے 2017 کی فوجی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف تین ماہ میں 300 سے زائد روہنگیا دیہاتوں کو منظم طور پر نذر آتش کیا گیا، اندھا دھند قتلِ عام اور اجتماعی جنسی زیادتیوں کی گئیں، جن کی مقامی بدھ اکثریت نے حمایت کی۔ ان مظالم کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیا افراد نے خصوصاً بنگلہ دیش میں پناہ لی۔
انہوں نے میانمار کی اشرافیہ، میڈیا، اور تعلیم یافتہ طبقے کی خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ ان میں سے کئی نے فوج کے اقدامات کی دانستہ حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ "نسل کشی اچانک نہیں ہوتی، یہ منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے، اور اصل بات یہ ہے کہ معاشرے اس علم کے ساتھ کیا کرتے ہیں جو ان کے پاس ہوتا ہے۔”
ڈاکٹر زارنی نے روہنگیا نسل کشی کے نظریاتی پس منظر کو بھارت میں ہندوتوا اور اسرائیل میں صیہونیت سے تشبیہ دی، جہاں تشدد کو قومی یا مذہبی شناخت کے خیالی خطرات کے خلاف دفاع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
احمر بلال صوفی نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کا معاملہ انفرادی انتخاب ہونا چاہیے اور ہر شخص کو کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، چاہے وہ ملکی ہو یا بین الاقوامی قانون کے تحت۔ اسلامی اصولوں اور پاکستان کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام ہر انسانی جان کے تحفظ کا حکم دیتا ہے، خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ اصول اقوام متحدہ کے نسل کشی کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کے آرٹیکل 2 سے مطابقت رکھتا ہے۔
انہوں نے 1990 کی دہائی میں بوسنیا میں ہونے والی نسل کشی کے بعد اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے کی گئی دستاویز سازی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سزاؤں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھی اسی طرح کی غیرجانبدار اور معروضی دستاویز سازی کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
خالد رحمان نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کا انتخابی اطلاق اس کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے اور تشدد کے سلسلے کو مزید بڑھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب کسی خاص خطے تک محدود نہیں رہیں اور منتخب وکالت مزید ظلم کو جنم دیتی ہے۔ انہوں نے فلسطین اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی مثالیں روہنگیا مسئلے سے مشابہ قرار دیں۔
گفتگو میں کچھ امید افزا پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ ڈاکٹر زارنی نے کہا کہ اگرچہ میانمار کی فوج اب بھی ظلم و ستم کی اصل محرک ہے، لیکن اس کی طاقت کمزور ہوئی ہے اور حال ہی میں اس نے بنگلہ دیش سے تقریباً 1,80,000 روہنگیا مہاجرین کو واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ انتظامیہ کے دوران امریکی امداد میں عمومی کمی کے باوجود، روہنگیا سے متعلق امداد میں کٹوتی نہیں کی گئی، جو کہ بین الاقوامی تشویش کی ایک جھلک ہے۔