’سولیڈیریٹی سولر ایکشنزفار انرجی ٹرانزیشن‘
پاکستان کی گرین پالیسیاں ایس ڈی جیز اور توانائی کی منتقلی کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں: مرزا حامد حسن
پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف اور توانائی کی منتقلی میں معاونت سے متعلقہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے گرین توانائی کے حوالہ سے اپنے بین الاقوامی وعدوں کے ساتھ اخلاص کی توثیق کی ہے۔
یہ بات مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی اور رکن آئی پی ایس ،نیشنل اکیڈمک کونسل نے 21 مارچ 2023 کو منعقدہ ایک ویبینار میں ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے کہی جس کا عنوان تھا ’سولیڈیریٹی سولرایکشنز فار انرجی ٹرانزیشن‘۔
ویبینار کی مشترکہ میزبانی’ چائنا انرجی نیٹ ورک پریس‘ اور منیلا میں قائم ایک این جی او ’پیپل آف ایشیا فار کلائمیٹ سلوشنز ‘نے کی، جو کہ چین پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے، کلائیمیٹ ایکشن کو فروغ دینے اور ایشیائی ممالک میں توانائی کی منتقلی میں تیزی لانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
آن لائن فورم میں جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے بڑے ممالک کے محققین اور وکلاء اور چین کے شمسی صنعت کے رہنماؤں نے مشترکہ چیلنجوں کو سمجھنے، مشترکہ مواقع تلاش کرنے اور جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں تیز رفتار توانائی کی منتقلی کے لیے یکجہتی پر مبنی پالیسیوں کی عملی منصوبہ بندی کا جائزہ لینے کے نقطہ نظر سےشرکت کی۔
توانائی کی منتقلی میں شمسی توانائی کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، مرزا حامد نے بجلی اور مقامی قدرتی گیس کی شدید قلت پر روشنی ڈالی، جو کہ پچھلے کچھ سالوں سے روایتی طور پر پاکستان میں توانائی کے دو بڑے ذرائع ہیں ۔ اس کے علاوہ، خود مختار پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا تعارف، آئی پی پیزکے ساتھ مہنگے بجلی کی خریداری کے معاہدے، اور بجلی کی قلت کے نتیجے میں بجلی کی دستیابی ، اس کی فراہمی ، لوگوں میں استطاعت اورنظام پر بھروسے جیسے مسائل گفتگو کا محور تھے۔
نتیجتاً، پاکستان اب 400 ارب روپے کے بڑے گردشی قرضوں، صنعتی یونٹس کی بندش یا نقل مکانی، معاشی سرگرمیوں اور لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں خلل اور بے روزگاری میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ صورتحال توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور پیرا ڈائم شفٹ کی ضرورت کا تقاضا کرتی ہے۔ آگے پیچھے آنے والی حکومتوں نے نئی پالیسیاں متعارف کراتے ہوئے پاور سیکٹر میں اصلاحات کی ہیں۔ تاہم، انہوں نے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ سستی، مناسب اوربہتر توانائی کے لیے مزید سخت کوششیں، قابل تجدید توانائی کے لیے مضبوط سیاسی عزم، اور توانائی کی منتقلی کے لیے مارکیٹ مراعات کی ضرورت ہے۔
مرزا حامد نے آئندہ برسوں میں توانائی کی ضرورتوں کے تعین اور اس کی منتقلی کی بھرپور منصوبہ بندی کا مشورہ دیا۔ مثال کے طور پر، عوام کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے گاہکوں کے لیے شمسی اور ہوا سے بجلی کے منصوبوں کی تعمیر کے بہت سے مواقع ہوں گے۔ مزید برآں، چینی کمپنیاں خصوصی اقتصادی زونز میں سولر پینلز، ونڈ ٹربائنز اور اس سے منسلک آلات کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹس لگا کر اور پاکستانی کارکنوں کو مینوفیکچرنگ یونٹس میں استعداد کار بڑھانے کی تربیت فراہم کر کے انہیں مقامی بنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
جواب دیں