‘غزہ، اُبھرتا ہوا ورلڈ آرڈر اور امریکن پولیٹکس’
غزہ تنازع کے نتیجے میں امریکہ میں مسئلہِ فلسطین پر مسلمانوں کی آواز زور پکڑ رہی ہے
امریکہ میں غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں، اور بالخصوص مسئلہِ فلسطین کے لیے مسلم آبادی کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس تنازعہ نے مسلمانوں میں عجلت اور اتحاد کے ایک مضبوط احساس کو جگا دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں اب ان کی آوازیں زیادہ سنائی دے رہی ہیں، جس سے کمیونٹی مضبوط ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عام امریکی عوام کی اس کاز کی حمایت میں اظہار یکجہتی سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔
یہ بات پاکستانی نژاد امریکی سیاسی تجزیہ کار اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں امریکن مسلم اسٹڈیز پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہد بخاری کے ‘غزہ، اُبھرتا ہوا ورلڈ آرڈر اور امریکن پولیٹکس’ کے عنوان سے 12 جنوری 2024 کو منعقدہ ایک مباحثے کے دوران سامنے آئی جس کی میزبانی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس ) نے کی، جبکہ نشست میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین ، اور آئی پی ایس کے مشیر برائے ریسرچ اینڈ اکیڈمک آؤٹ ریچ ڈاکٹر فخر الاسلام بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر بخاری نے مشاہدہ کیا کہ مذکورہ مسلم سرگرمیوں میں اضافہ 9/11 کے واقعات کے بعد کے سالوں میں امریکی مسلم کمیونٹی کی اپنے نقطہ نظر کو سامنے لانے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ تحریک صرف مسلم آبادی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس نے امریکی عوام کی طرف سے بھی وسیع حمایت حاصل کی ہے، جو تیزی سے غزہ کے کاز کے ساتھ اپنی صف بندی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پرانی نسل، خاص طور پر وہ لوگ جو ریپبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں، اسرائیل کی حمایت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں، لیکن نوجوان نسل کی رائے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جن میں کچھ ڈیموکریٹس بھی شامل ہیں، جن کے مسئلہ فلسطین کے بارے میں تاثرات بدل گئے ہیں۔
مزید برآں، میڈیا مسلمانوں اور اسرائیل – فلسطین کے مسئلہ کےحوالے سے اپنے موقف میں نمایاں تبدیلیاں دکھا رہا ہے۔ ڈاکٹر بخاری نے بعض میڈیا اداروں کے بدلتے ہوئے نقطہ نظر کی وضاحت بھی کی جنہوں نے فلسطینی بیانیہ کو شامل کرنے کے لیے اپنی کوریج میں تبدیلی کی ہے، جو کچھ عرصہ قبل ناقابل تصوّر تھا۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ یہ تبدیلی نہ صرف میڈیا کے منظر نامے میں بلکہ عالمی نظام کی حالت میں بھی رونما ہو رہی ہے جس میں خاطر خواہ تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ انہوں نے اس عام پائے جانے والی رائے پر زور دیا کہ امریکہ کی نرم طاقت کے باوجود ہارڈ پاور کے ذریعے اس کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکہ سپر پاور کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھ رہا ہے، لیکن دیگر بااثر اقوام کے ابھرنے کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ نتیجتاً، اس بارے میں بحث بڑھ رہی ہے کہ آیا امریکہ کا غالب کردار برقرار رہے گا یا کوئی اور ملک اس سے آگے نکل جائے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ چین اور دیگر ممالک مسلسل طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں اور ممکنہ حریف کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ طاقت کی یہ بدلتی ہوئی حرکیات، امریکی عام آبادی اور حکومت کے درمیان جاری تصادم کے ساتھ مل کر، امریکی سماجی سیاسی حالات کو متاثر کرنے کی نمایاں صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ امریکی حکومت کے لیے بدلتے ہوئے ماحول کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے۔
ڈاکٹر بخاری کے مشاہدات کی تائید کرتے ہوئے خالد رحمٰن نے زور دیا کہ امریکہ کے کم ہوتے اثر و رسوخ کے باوجود عالمی رائے عامہ کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب طاقت کی حرکیات میں تبدیلی آتی ہے، اس کی منتقلی آہستہ ہوتی ہے، جو کہ عالمی نظام کو متاثر کرنے والی قوتوں کے پیچیدہ تعامل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔
جواب دیں