‘قراردادِ مقاصد کے 75 سال: اثرات اور اہمیت’
پاکستان کے تشخص کو نمایاں کرنے کے لیے قرارداد مقاصد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
قرارداد مقاصد پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین دستاویز ہے اور اسی نے تمام تر تنوّع کے باوجود قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کو یقینی بنایا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے تشخص کی بنیاد کے طور پر اسے اجاگر کرنا اور اسے مضبوط بنانا ایک اجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔
موجودہ دور میں جب اتحاد اور ہم آہنگی سب سے زیادہ اہم ہیں، قرارداد مقاصد شہریوں کو ان کےمشترکہ اقدار اور ایک خوشحال اور جامع معاشرے کی تعمیر کے لیے ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کی یاد دلاتی ہے۔ اس قرارداد کی رُوح کو سمجھنے اور قومی زندگی کے ایک اہم ستون کے طور پر اسے اپنانے کے لیے کوششوں میں بالخصوص نوجوانوں کو حصہ لینا چاہیے تاکہ ملک کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہو، قومی شناخت واضح اور اس قرارداد کے مطابق تیار کردہ آئینی نظام میں اسلامی جمہوریت، آزادی اور مساوات کے اصولوں کا اعادہ ہو۔
یہ ‘قراردادِ مقاصد کے 75 سال: اثرات اور اہمیت’ کے عنوان سے بحریہ یونیورسٹی ، اسلام آباد کیمپس کے شعبہ انسانی و سماجی علوم کے تعاون سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد (آئی پی ایس) زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے ایک لیکچر کا حاصل تھا جس کا انعقاد 23 اپریل 2024 کو کیا گیا تھا۔
نوجوان محقق اور مقرر سید معاذ شاہ اس نشست کے مرکزی مقرر تھے جبکہ آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت نے اس کی صدارت کی۔
سید معاذ شاہ نے قرارداد مقاصد کو ایک ایسی دستاویز قرار دیا جس نے پاکستان کے سماج اور حکومتی ڈھانچے کی نہ صرف بنیادیں استوار کی ہیں بلکہ ملک اور معاشرے کی نوعیت و کردار کو بھی نمایاں کیا ہے۔ یہ ملک کی اخلاقی اور انتظامی تشکیل بھی کرتی ہے اور پاکستانی تشخص کی بنیاد کے طور پر اُس کردار کو واضح کرتا ہے جو پاکستان کی مجسم روح ہے۔ اس قرارداد نے ریاست کی آیندہ نسلوں کو بانیانِ پاکستان کے تصوّر اور جذبے سے منسلک کیاہے ۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قرارداد مقاصد کا ملک کے مختلف طبقات کے مابین قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دینے اور متحد کرنے میں اہم کردار ہے”، مقرر نے قرارداد سے متعلق ان غلط تشریحات پر سیرحاصل بحث کی جواس قرارداد کے متن، معانی، پس منظر اور اثرات کے بارے میں آگاہی کے فقدان سے پیدا ہوئی ہیں ۔
مثال کے طور پر قرار داد منظور ہونے کے بعد سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس میں اقلیتوں سے متعلق امور کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ مقرر نے کہا کہ قرارداد مقاصد میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے اور ان کی مزید وضاحت یہ کہتے ہوئے کی گئی ہے کہ آئین میں ان اصولوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق شامل کیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے قرارداد کے محرک اور پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے غیر مسلموں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ درحقیقت ایسا کرنا غیر اسلامی ہوتا۔
شاہ نے مزید کہا کہ قراردادِ مقاصد ایک کلیدی اور تفصیلی دستاویز ہے جسے اکثر آئینِ پاکستان کی تمہید سمجھا جاتا ہے اور اسے 1973ء کے آئین کے آرٹیکلدو الف کے ذریعے مزید تحفظ دیا گیا ہے۔ اس کی کلیدی شق، ’’پوری دنیا پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور جو اختیار اس نے ریاست پاکستان کو سونپا ہے، اس کے عوام کے ذریعے اس کی مقرر کردہ حدود میں بطور ایک مقدس امانت کے استعمال کیا جائے گا ‘‘،اس میں اقلیتوں کے لیے رکھی گئی گنجایش کو واضح کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد مقاصد قانونی حوالے سے انسانی مساوات کے اصول پر استوار ہے اور اس کی تشکیل بھی پالیسی سازی کے جمہوری اصولوں کے مطابق ہوئی ہے جس میں تمام متعلقہ گروہوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل تھی۔
تاریخی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے معاذ شاہ نے کہا کہ قراردادِ مقاصد کی مخالفت کرنے والے دستور ساز اسمبلی کے ہندو ارکان 1946ء کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے تھے اور وہ پہلے ہی پاکستان کی تخلیق اور تصور کے خلاف تھے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قرارداد مقاصد کی مخالفت کی وجوہات بنیادی طور پر سیاسی تھیں نہ کہ مذہبی، انہوں نے نشاندہی کی کہ "پاکستان کی حمایت کرنے والے غیر مسلم اراکین نے بھی قرارداد مقاصد کی حمایت کی”۔
اس تقریب نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے فیکلٹی ممبران اور طلباء کو اپنی طرف متوجہ کیا، جنہوں نے کلیدی خطاب کے بعد اس موضوع سے متعلق ہونے والے مکالمے میں حصّہ لیا۔ قومی زندگی میں قرارداد مقاصد کی اہمیت اور اثرات پر متعدد جہتوں سے تبادلہ خیال کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ قومی تشخص اور اجتماعی جذبے کو تقویت دینے کے لیے اس کے بارے میں کو نوجوانوں میں بہتر تفہیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریب کے میزبان پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود نےآخر میں حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
جواب دیں