مذہب کی تبدیلی کی بے بنیاد مہم سے سندھ کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہاہے: پیر ایوب جان سرہندی
عقیدے کی جبری تبدیلی کا افسانہ مسخ شدہ حقائق پر مبنی ہے جو ذاتی مفادات کے لیے پھیلائے گئے ہیں، جس سے سندھ کی اس سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے جس میں مختلف مذہبی برادریاں صدیوں سے پرامن رفاقت میں زندگی بسر کرہی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار سندھ کے معروف عالم دین پیر محمد ایوب جان سرہندی نے 17 جولائی 2022 کو آئی پی ایس میں منعقدہ گول میز اجلاس کے دوران اپنے کلیدی خطاب میں کیا۔ آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس اجلاس کا مقصدسندھ میں مذہب کی تبدیلی سے متعلق تنازعات کے پس پردہ عوامل کو تلاش کرناتھا۔
چونکہ پاکستان میں مذہب کی تبدیلی ایک جذباتی مسئلہ ہے، اس لیے لوگ زیادہ تر بیان بازی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان جھوٹے بیانیوں اور پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس واقعہ کے پیچھے حقیقت تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں، آئی پی ایس ان مذہبی تبدیلیوں کی حقیقت پسندانہ پوزیشن اور زمینی حقائق کو سامنے لانے پر تحقیقی کام کرتا رہا ہے۔یہ سیمینارزکے انعقاد، متعلقہ علاقوں کے تحقیقاتی دوروں، مذہب کی جبری تبدیلی کے مبینہ متاثرین کے انٹرویوز، اور ان لوگوں سے ملاقاتوں کی شکل میں ہوا ہے جن پر مذہبی اقلیتوں کومذہب تبدیل کرنے کے لیے قائل کرنے اور ان پرطاقت کے استعمال کا الزام ہے۔
یہ اجتماع آئی پی ایس کے اسی وسیع تر پروگرام کا حصہ تھا جس کا مقصد نام نہاد مذہب کی جبری تبدیلی کے پہلووں کوسمجھنا ہے تاکہ ایسی پالیسی اور قانون سازی کی تجویز پیش کی جا سکے جو ملک میں ہر ایک کے حقوق اور وقار کا تحفظ کر سکے۔
اس موقع پر سرہندی نے کہا کہ سندھ کی ایک بھرپور مذہبی اور ثقافتی شناخت ہے جہاں مختلف عقائد کے لوگ ایک طویل عرصے سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسے کبھی بھی ایسے بے بنیاد اور گمراہ کن انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں، ذاتی مفادات کے لیے اس پر اتنی سیاست کی گئی ہے اور اسے اتنا اسکینڈلائز کیا گیاہے کہ اس نے پاکستان کےاندر مذہبی اقلیتوں کے لیےروادری میں کمی کاسوال کھڑا کر دیا ہے۔
اس الزام کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان خاص طور پر سندھ میں مختلف مذہبی برادریاں ایک سماجی اور ثقافتی تانے بانے میں جڑی ہوئی ہیں اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی بیرونی عوامل موجودہ رجحان میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں لیکن میڈیا اور سماجی کارکنوں کی طرف سے کبھی بھی ان پر کچھ نہیں کہا جاتا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سندھ میں مذہبی تبدیلیوں کے زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں جو بین الاقوامی میڈیا نے پیش کیے ہیں کیونکہ وہ پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیےایک منظم پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کی جانبداری کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے، انہوں نے نشاندہی کی کہ کس طرح ایک طرف یہ کچھ علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق حقائق کو پیش کرنے میں ہچکچاتا ہے اور انہیں نظر اندازکرتاہے، اور دوسری طرف ڈھٹائی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی تبدیلیوں کو غلط انداز میں پیش کرتا ہے اور تنقید کرتا ہے، جو کہ درحقیقت تمام قانونی اور اخلاقی معیار پر پورا اتر کر کی گئی ہوتی ہیں۔
مزید برآں، جیسا کہ اسلامی اسکالرز پر اکثر مذہبی تبدیلیوں میں طاقت استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی طاقت یا دباؤ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اپنا حوالہ دیتے ہوئے، سرہندی نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک ایسے مدرسے سے ہے جسے انگریزوں نے بااختیارکیا تھا، جنہوں نے ان مدارس کے مستند ہونے کے وصف کی چھان پھٹک کی تھی جہاں مذہب تبدیل ہوتا ہے تاکہ ان تمام غیر مسلموں کو قانونی طور پر تبدیل کیا جائے جو اسلام سے متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تمام مذہبی، قانونی اور اخلاقی پروٹوکولز کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور کسی کے مذہب کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک اس بات کی تصدیق نہ ہو جائے کہ وہ یہ قدم بغیر کسی بیرونی دباؤ یا رغبت کے اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب تبدیل کرنے والوں کو متعلقہ عدالتوں کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا ہے۔
آخر میں، ابرار حسین نے اس بات پر زور دیا کہ مقامی لوگوں اور اس مسئلے سے براہ راست تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اس طرح کی تجزیاتی اور حقائق پر مبنی بات چیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کے کھوج، بیداری پیدا کرنے اور مذہبی تبدیلیوں کے رجحان کی تفہیم کو بڑھانے میں اس سے مدد لی جا سکتی ہے۔
جواب دیں