مسلم نوجوانوں کو انسانیت کی نجات کے لیے اپنی علمی و روحانی میراث سے وابستہ ہونا ہوگا: ڈاکٹر انیس احمد

مسلم نوجوانوں کو انسانیت کی نجات کے لیے اپنی علمی و روحانی میراث سے وابستہ ہونا ہوگا: ڈاکٹر انیس احمد

مسلم نوجوانوں کو اپنی علمی و روحانی میراث سے دوبارہ جڑ کر انسانیت کی اجتماعی بہبود کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ مقصد کے شعور، عزم اور ذمہ داری کے جذبے سے سرشار مسلم نوجوان ہی انسانیت کو بچانے کے لیے ایک متبادل نظام پیش کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز دانش ور ، ماہر سماجیات اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز)آئی پی ایس (اسلام آباد میں۲۹ مئی ۲۰۲۵ کو منعقد ایک لیکچر کے دوران دیا۔

یہ پروگرام برطانیہ کی مارک فیلڈ انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائیشیا کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف مسلم یونٹی کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ ’آج کی دنیا اور انسانیت کا مستقبل‘ کے عنوان سے جاری سلسلے کا یہ دوسرا لیکچر تھا، جس کا عنوان ’انسانی تہذیب کو درپیش مسائل‘ تھا۔ اس نشست کی نظامت پروفیسر ڈاکٹر مستفیض احمد علوی نے کی، جبکہ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا کے پروفیسر ڈاکٹر حزیزان محمد نون نے مباحثہ میں شرکت کی۔ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے متعدد علماء اور طلبہ نے اس نشست میں آن لائن شرکت کی۔

لیکچر میں انسانی تہذیب کو لاحق سنجیدہ مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔ ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ ان مسائل کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مغربی جدیدیت کے ارتقاء کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے، جس نے گزشتہ صدیوں میں عالمی نظریاتی منظر نامہ تشکیل دیا ہے۔ کلیسا کے کردا ر کے حوالے سے یورپ کے تجربے سے جنم لینے والے نظام میں روح اور مادہ کو اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور انسانیت کا تصور ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ مشینی زندگی نے فرد اور معاشرے کو زندگی کے اعلیٰ مقاصد سے محروم کر دیا، جبکہ خود غرض انفرادیت نے خاندانی ڈھانچے کو تباہ کر کے معاشرتی ساخت کو مسخ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدید تہذیب اخلاقی زوال، انفرادیت اور بے مقصدیت کا شکار ہے۔ ایک گہرے روحانی و سماجی بحران سے گزرتے موجودہ دور میں مشینی زندگی اور مصنوعی شناخت کے تصورات نے فطری اور الہامی اصولوں سے خطرناک حد تک انحراف کیا ہے۔

ڈاکٹر انیس نے زور دے کر کہا کہ اسلام، بحیثیت ایک مکمل اور دائمی نظام زندگی، قرآن و سنت کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا جامع نظریہ پیش کرتا ہے۔ اسلام نہ صرف عقائد بلکہ اخلاقی اصولوں اور مقاصد شریعت پر مبنی حل فراہم کرتا ہے۔ مسلمانوں کو خود اصلاحی، محنت اور الہامی ہدایت کے عملی اطلاق کے ذریعے فکری و اخلاقی قیادت بحال کرنی ہوگی۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ انحصار اور غیر فعال رویے کو ترک کر کے ایمان کی روشنی میں ہر شعبہ زندگی میں مثبت کردار ادا کریں۔

ڈاکٹر انیس احمد کا مزید کہنا تھا کہ تبدیلی راتوں رات نہیں آتی۔ قوموں کو اپنے معاشروں میں تبدیلی لانے کے لیے دہائیوں، بلکہ صدیوں تک مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک ایسی نسل تیار کرنے کے لیے جو لوگوں کو منصفانہ اور عادلانہ دنیا کی طرف راغب کر سکے، مسلمانوں کو ادارہ جاتی طریقے سے مضبوط اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ وہ عالمی سطح پر انسانی فکر پر اخلاقی و فکری اثر ڈال سکیں۔ انہوں نے زور دیا کہ علم کی مقدار کے بجائے اس کے معیار اور مقصد پر توجہ مرکوز کی جائے۔

ڈاکٹر حزیزان نون نے بھی اخلاقی اقدار کے فروغ اور روحانی بنیادوں پر مبنی عالمی نظریے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ انہوں نے خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI) کو انسانی عقل اور اخلاقی نظریے کے تابع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ان کا کہناتھا کہ اسلامی فکر سے ہم آہنگ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے اخلاقی ضابطوں کی فوری تشکیل ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر مستفیض علوی نے اختتامی کلمات میں مقصد اور اقدار پر مبنی قیادت کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مسلم علماء کی میراث کو آگے بڑھاتے ہوئے اخلاق، عقل اور مقصد کو ہم آہنگ کرنے والا ایک جامع اسلامی متبادل پیش کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

آئی پی ایس کی یہ لیکچر سیریز موجودہ دور کے عالمی اخلاقی و فکری چیلنجز کے تنقیدی جائزے اور ایک زیادہ انسانی، اخلاقی اور روحانی مستقبل کی تشکیل میں اسلام کے کردار کو اجاگر کرنے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔

Share this post